یونیسف نے اتوار کو افغانستان کے تمام سرکاری اساتذہ کی نقد ہنگامی امداد کا اعلان کیا ہے جو انھیں ماہ جنوری اور فروری کی تنخواہوں کی مد میں ادا کی جائے گی اور کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد اسکول جانے والے بچے اور بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ قائم رکھنا ہے۔
اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی یورپی یونین کی مالی اعانت سے کی جائے گی جو کہ فی ٹیچر ایک سو ڈالر کے مساوی ہے۔ یونیسف کے اس اقدام سے ملک بھر کے ایک لاکھ 94 ہزار اساتذہ کو فائدہ پہنچے گا جنھیں گزشتہ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
یونیسف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ اقدام اساتذہ کے اس کردار کے اعتراف میں اٹھایا جارہاہے جو افغانستان کے سرکاری اسکولوں کے 88 لاکھ بچوں کی تعلیم کے لیے وہ ادا کررہے ہیں۔
افغانستان کےلیے یونیسف کے نمائندے محمد ایویا نے کہاہےکہ " مہینوں سے غیر یقینی صورتحال اور مشکلات سے دوچار افغانستان کے سرکاری اسکولوں کے ان اساتذہ کے لیے ہنگامی امداد فراہم کرتے ہوئے انھیں خوشی ہورہی ہےجنھوں نے بچوں کی تدریس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے''۔
ایویا نے کہا کہ یونیسف کو سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی مدد جاری رکھنے کے لیے اضافی 25 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوگی اور عطیہ دہندگان سے اس فنڈ میں ہنگامی عطیات کی اپیل کی۔
اگست کے وسط میں ملک پر مسلح قبضے کے بعد ، اب طالبان نے خواتین کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں دوبارہ کام شروع کرنےاجازت دی ہے اور سرکاری ونجی یونیورسٹیوں کو خواتین کے لیے کھول دیا ہے، جبکہ سیکنڈری اسکولوں کی بچیاں بھی ملک کے چونتیس صوبوں کے درجنوں اسکولوں میں واپس لوٹ آئی ہیں۔
نئے اسلام پسند حکمرانوں نے مارچ کے آخیر تک تمام لڑکیوں کے لیے اسکول کھول دینے کا وعدہ کیا ہے ، اور کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے میں تاخیر مالی مشکلات اور ان قوائد اور انتظامات کو حتمی شکل دینے کی وجہ سے ہورہی ہیں جس پر عمل کرکے طالبات اپنی کلاسوں کا دوبارہ آغاز اسلامی شرعی قوانین کے عین مطابق کرسکیں گی۔
امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں گزشتہ سال طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور امریکی قیادت میں بین الااقوامی افواج کے ملک سے انخلا کے بعد سے وہاں انسانی امداد کی ضرورت کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے افغانستان کے لیے انسانی امداد کو چھوڑ کر دیگر تمام دیگر اقسام کی فنڈنگ پر پابندی عائد کردی ہے۔یہ فنڈنگ ملک کی مجموعی بجٹ کا چالیس فیصد ہے اور ساتھ ہی افغان مرکزی بنک کے اربوں ڈالر تک جو زیادہ تر امریکی بینکوں میں پڑے ہیں ، طالبان کو رسائی دینے سے روک دیا ہے۔
ان پابندیوں سے افغانستان کی کمزور معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہےاور برسوں کی جنگ اور قدرتی آفات کی وجہ سے پیدا ہونے والا انسانی بحران مزید سنگین ہوگیاہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے تقریبا 2 کروڑ30 لاکھ لوگ جو کہ اس غربت زدہ ملک کی آبادی کا55 فیصد ہیں ، انتہائی فاقہ زدگی کا شکار ہیں، جن میں سے نوے لاکھ لوگ قحط کی صورتحال سے صرف ایک قدم پیچھے رہ گئے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے ہفتے کو میونخ سیکورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ واشنگٹن بھی اگلے ماہ افغان بچیوں کی اسکولوں میں واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ " ہم نے اساتذہ کی تنخواہوں، کتابوں کی خریداری اور تعلیمی عمارتوں کی تزئین و آرائش کے لیے عالمی بنک کے سامنے تقریباً 18 کروڑ ڈالر دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بیس مارچ کو نوروز کے بعد طالبان بچیوں کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
ابھی تک کسی ملک نے بھی طالبان کو قانونی حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ان کی قانونی حیثیت پر ٖغور کرنے سے پہلے عالمی برادری چاہتی ہے کہ اسلام پسند کابل میں ایک جامع حکومت قائم کریں جو تمام افغان نسلی گروہوں کی نمائندہ ہو؛ خواتین کے تعلیم اور کام کرنے کے حقوق کو یقینی بنائے اور دہشت گردوں کو افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کرنے دے۔