امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ہفتے کے روز کانگریس کے دونوں ایوان سے پاس ہونے والے بل پر دستخط کر کے قانون کی حیثیت دے دی جو امریکی حکومت کو اخراجات کے لیے مزید قرضے لینے کی اجازت دیتا ہے اور ملک کو ممکنہ ڈیفالٹ سے بچاتا ہے۔
اس بل کے پاس ہونے سےقبل تعطل کا شکار ہونے پر امریکی محکمہ خزانہ نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ وہ پیر تک اپنے تمام بل ادا کر سکے۔
امریکی سینیٹ نے جمعرات کی رات 36 کے مقابلے میں 63 ووٹوں سے اسس بل کی حمایت میں ووٹ دیا تھا جس سے امریکہ اپنے بلوں کی ادائیگی جاری رکھ سکے گا۔ یہ دو طرفہ قانون سازی اب صدر جو بائیڈن کے پاس دستخط کے لیے جانی ہے۔
صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہ تھا ا کہ "آج رات، دونوں جماعتوں کے سینیٹرز نے ہماری محنت سے حاصل کی گئی معاشی پیش رفت کے تحفظ اور ریاستہائے متحدہ کی طرف سے پہلی بار ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے ووٹ دیاہے۔"
جمعرات کو بل کی منظوری کے بعد سینیٹ کے اکثریتی لیڈر چک شومر نے اپنی تقریر میں بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی عوام، صدر جو بائیڈن اور اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے اس پر زور دیا کہ اس حتمی بل میں ڈیمو کریٹس ایسے بہت سے اخراجات برقرار رکھنے میں کامیاب رہےہیں جنہیں ری پبلکنز نے چیلنج کیا تھا۔
سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعدسی این این پرہونے والےتجزیے میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ اپنی تقریر میں چک شومر نے ایک بار بھی ایوان کے اسپیکر کیون میکارتھی کا نام نہیں لیا۔
میکارتھی نے ری پبلکن پارٹی کے شک وشبہ کا شکار ، سخت مؤقف رکھنے والے ارکان کو ایوان میں بل کی منظوری کے لیے قائل کرنے کے لیے سخت تگ و دو کی تھی۔
SEE ALSO: امریکہ میں قرضے کی حد کے بارے میں ایوان سے منظور شدہ بل پر سینٹ میں بحثڈیڈ لائن سے قبل اس بل کی منظوری کو ایک تبا ہ کن بحران کے ٹل جانے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اگر یکم جون تک قرض کی حد بڑھانے کے بل کی منظوری نہ دی گئی تو ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے جس کے اثرات نہ صرف امریکہ میں محسوس کیے جاتے بلکہ عالمی معیشت بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتی۔
منظور شدہ بل میں کیا ہے؟
یہ بل قرض کی نئی مالیاتی حد متعین نہیں کرتا ، لیکن قرض لینے کا اختیار اگلے صدارتی انتخابات سے دو ماہ بعد تک، یعنی دو جنوری 2025 تک بڑھ جائے گا۔
اس کے علاوہ، قانون سازی میں اکتوبر سے شروع ہونے والے مالی سال میں زیادہ تر وفاقی اخراجات کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں اگلے 12 مہینوں میں ایک فی صداضافہ ہوگا۔
ڈیموکریٹک سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر اور سینیٹ کے ریپبلکن رہنما مچ میکونل دونوں نے قرض کی حد کو معطل کرنے کی حمایت کی اور قانون سازی کو تیزی سے منظور کرنے کی اپیل کی۔
شومر نے سینیٹ کو بتایا، " و قت ایک آسائش ہے جو سینیٹ کے پاس نہیں ہے۔" اگر ہم ڈیفالٹ کو روکنا چاہتے ہیں،تواس عمل کو آخری لمحے تک لے جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ملک اب اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما ڈک ڈربن نے نامہ نگاروں سے کہا کہ"امریکہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے منظور کرے۔"
ایوان نمائندگان نے انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکن قانون سازوں کے اعتراضات کے باوجود،117 کے مقابلے میں 314 ووٹوں سے قانون سازی کی منظوری دی تھی۔
مخالفت کرنے والےریپبلکنز کا کہنا تھا کہ یہ بل اخراجات میں خاطر خواہ کمی تک نہیں جا سکا اور ڈیموکریٹک ترقی پسندوں کا استد لال تھا کہ اس میں بہت زیادہ کٹوتی کی گئی ہے۔
ہاؤس کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی نے صحافیوں کو بتایا کہ بل کی منظوری "کوئی آسان لڑائی نہیں تھی۔" انہوں نے بجٹ میں بچت پر زور دیا اور ان ڈیموکریٹس پر تنقید کی جو مستقبل کے حکومتی اخراجات کے بارے میں بحث کو قرض کی حد کو معطل کرنے کی ضرورت سے الگ کرنا چاہتے ہیں تاکہ موجودہ مالیاتی ذمہ داریوں کو پورا کیا جا سکے۔
میکارتھی نے کہا کہ "ہم نے امریکہ کے شہریوں کو مقدم رکھا اور ہم نےاس کے لیے آسان راستہ اختیارنہیں کیا۔" وہ وفاقی اخراجات میں کمی کے لیے مزید کوششوں کے ساتھ بدھ کی کارروائی پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ اقدام ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کرتا ہے اور نہ ہی یہ قومی قرضوں کی کل رقم کو بڑھنے سے روکے گا۔
قانون سازی کے دیگر حصوں میں ملک کی ٹیکس جمع کرنے والی ایجنسی کے ذریعے نئے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنے کی تعداد میں کمی شامل ہے، اس میں ایک شرط یہ ہے کہ ریاستیں وفاقی حکومت کو 30 ارب ڈالر کی کرونا کی وبا کے دوران دی جانے والی وہ امداد واپس کریں جو خرچ نہیں ہوئی ہے۔
بل میں ان لوگوں کے لیے کام کرنےکی عمر کو 50 سال سے بڑھا کر 54 برس کرنا شامل ہے جو خوراک کی امداد حاصل کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن کے دستخطوں کے بعد اس بل کو قانون کا درجہ مل جائے گا۔
(کین برڈمیر، وی او اے نیوز) اس خبر کو اتوار چار جون 2023 کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔