امریکہ کے ایوان نمائندگان نے جمعرات کو 147 کے مقابلے میں 277 ووٹوں سے دفاعی پالیسی کا ایک بل منظور کیا ہے جس میں کچھ شرائط پوری نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کی دفاعی امداد پر پابندیاں بڑھانے کا کہا گیا ہے۔
یہ پابندیاں ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ کہلانے والے امریکہ کے 602 ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی بجٹ کے قانون میں عائد کی گئی ہیں۔
پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایوان نمائندگان نے کہا کہ اگر پاکستان شدت پسند گروہوں کے خلاف اپنی کارروائیاں نہیں بڑھاتا تو اس قانون کے تحت پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی جائے گی۔ قانون ساز ان گروہوں کو افغانستان میں امریکی فورسز کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایوان نمائندگان میں ووٹنگ کے عمل سے قبل کانگریس کو بھیجے گئے ایک پالیسی بیان میں وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ وہ (دہشت گرد گروپ) حقانی نیٹ ورک کے بارے میں قانون سازوں کی تشویش کو سراہتا ہے، لیکن وہ امداد پر قدغن کے اقدام سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ یہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کو"غیر ضروری طور پر پیچیدہ" کرے گا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ میں پاکستان کی فوجی امداد روکنے کے حالیہ اقدامات سے پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے۔
’’ہم امریکہ کے ساتھ ایک طویل المعیاد سٹریٹیجک تعلق پر یقین رکھتے ہیں۔ اور ہم نے اس کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی حالات بہتر ہونے کو ہیں تو آپ امداد ختم کر دیں اور ایسے اہم ہتھیار جیسے ایف سولہ جن کی کافی عرصے سے منصوبہ بندی جاری تھی، اس کو آپ روک لیں ۔۔۔ پاکستانی قوم بڑی حساس ہے ان معاملات میں اور ہمارے تعلقات یقینی طور پر خراب ہوں گے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے جمعرات کو پاکستان کی وفاقی کابینہ کے دو اہم وزراء، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چوہدری نثار نے امریکہ کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کی فنڈنگ روکنے پر پاکستانی حکومت کے تحفظات سے امریکی نمائندہ خصوصی کو آگاہ کیا تھا۔
بیان کے مطابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سے تعلق کو وسعت دینا چاہتا ہے لیکن واشنگن کو چاہیے کہ وہ پاکستان کہ موقف کو بھی سمجھے۔
اس موقع پر رچڑ اولسن نے کہا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان کو اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔
ایوان نمائندگان میں بل منظور ہونے والے بل کے تحت پینٹاگان کو یہ تصدیق کرنا ہو گی کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے فوجی آپریشن کر رہا ہے اور اسے شمالی وزیرستان کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور سرحدی علاقوں میں اس نیٹ ورک کے خلاف افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر مربوط کارروائیاں کر رہا ہے۔
تاہم پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ تمام شدت پسند گروہوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی طرف سے کیے گئے اخراجات کی ادائیگی امریکہ کی طرف سے اتحادی اعانتی فنڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔
2017 کے دفاعی بل کا مسودہ تیار کرتے وقت ایوان نمائندگان کے ارکان نے پاکستان سے متعلق تین ترامیم شامل کی تھیں جنہیں متفقہ رائے شماری سے منظور کر لیا گیا۔
ایک رکن نے امداد جاری کرنے کے لیے ایک چوتھی شرط بھی شامل کی کہ انتظامیہ یہ تصدیق کرے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے اعلیٰ اور درمیانے درجے کے رہنماؤں کو پکڑنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں پیش رفت ظاہر کی ہے۔
ایک اور شرط یہ تھی کہ وزیر دفاع یہ تصدیق کریں کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے فراہم کی گئی رقم یا فوجی سازوسامان یا اپنی فوج کو ملک میں اقلیتی برادریوں کے خلاف مظالم کے لیے نہیں استعمال کر رہا۔
تیسری ترمیم میں کانگریس کی یہ رائے شامل کی گئی کہ شکیل آفریدی ایک عالمی ہیرو ہیں اور ان کی قید سے فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
شکیل آفریدی کو 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی اسپشیل فورسز کے آپریشن میں ہلاکت کے کچھ روز بعد یہ اطلاعات سامنے آنے پر گرفتار کیا گیا تھا کہ انھوں نے بن لادن کی نشاندہی کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ کو معاونت فراہم کی اور اس کے لیے علاقے میں ایک جعلی ویکسین مہم شروع کی تھی۔
تاہم بعد ازاں شکیل آفریدی کو 2012 میں ایک شدت پسند گروہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس سزا میں تخفیف کر کے اسے 23 سال کر دیا گیا تھا۔ سزا کے خلاف ان کی اپیل کی سماعت ابھی جاری ہے۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی عدالتیں شکیل آفریدی کی قسمت کا فیصلہ کریں گی اور اس نے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی سیاستدانوں کی طرف سے ان کی رہائی کے مطالبے پر سخت تنقید کی ہے۔
ایوان نمائندگان کی طرف سے منظور کیا جانے والا مسودہ اس قانون کا حتمی مسودہ نہیں۔ صدر اوباما کے دستخط یا ویٹو کے لیے وائٹ ہاؤس بھیجے جانے سے قبل اس کا موازنہ سینیٹ کی طرف سے منظور کیے گئے قانون سے کیا جائے گا۔
تاہم امریکی سینیٹ میں بھی پاکستان پر شدید تنقید سامنے آ چکی ہے۔ اس ماہ سینیٹر باب کروکر نے امور خارجہ کی کمیٹی کا چیئرمین ہونے کا اخیتار استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری میں امریکی امداد کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔