امریکہ کے اعلیٰ دفاعی حکام اس سال جولائی میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا عمل شروع کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں ،جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اب کئی اراکین کانگریس کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آرہاہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی دستے جلد از جلد نکال لیے جائیں ۔لیکن کیا افغانستان میں امریکی اہداف حاصل کئے جا چکے ہیں ؟ کیا وہاں سے فوج اور ماہرین واپس بلانے کا مرحلہ آگیا ہے؟ اور کیا واشنگٹن اپنی فوج کی واپسی کا عمل تیز کردے گا؟ ماہرین اب ان سوالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعتوں میں ماہرین سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان کی رائے میں امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کا راستہ اب کیا ہو نا چاہئے۔ افغانستان میں کامیابی کا اندازہ ماہرین پچھلے ایک سال میں تعلیم ، صحت اور امن و امان کے شعبے میں حاصل کی گئی کچھ اہم کامیابیوں اور امریکہ کے اپنے مسائل کو مد نظر رکھ کر لگانا چاہتے ہیں ۔
سینیٹر جان کیری ، جوامریکی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئر مین بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں ہر ممکن طور پر ضروری اقدامات کرنے ہونگے، اور اتنی موجودگی قائم رکھنی ہوگی جس سے افغان عوام کو اپنی ذمہ داری خود اٹھانے کے قابل بنایا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کیا ہم وہاں اپنے وہ مفادات بھی حاصل کر رہے ہیں جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے تبدیل نہیں ہوئے ۔
جب کہ سینیٹر لوگر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا افغانستان اتنا اہم ہے کہ وہاں اتنی جانیں اور وسائل خرچ کئے جائیں ، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب ہمارا اپنا ملک اتنا مقروض ہے ۔
امریکہ محکمہ دفاع کے حکام القاعدہ کے راہنما کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں جاری جنگ کے مستقبل کے بارے زیادہ پر اعتمادی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ تیزی سے فوج کا انخلاء گزشتہ سال افغانستان میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا اثر ضائع کر سکتا ہے۔ امریکی صحافی ایرک شمیٹ کا کہنا ہے کہ اس سال جولائی میں افغانستان سے پانچ ہزار امریکی فوجی جبکہ رواں سال کے آخر میں بھی اتنی ہی تعداد میں امریکی فوجیوں کا انخلاء متوقع تھا لیکن اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد جنرل پیٹرئیس فوج کے انخلاء کے پروگرام پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔
http://www.youtube.com/embed/YYa6cmb4_wg
وہ کہتے ہیں کہ اب اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہ دوبارہ سے جائزہ لینا چاہیں گے کہ کیا پہلے کی منصوبہ بندی کارآمد ہے یا اب اس میں تبدیلی کی ضرورت پڑے گی ۔ میرے خیال میں جنرل پیٹرئیس کی خواہش ہوگی کہ طالبان کی سرگرمیوں میں اضافے کے خطرے کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ فوجی ابھی افغانستان میں رکھے جائیں لیکن صدر اوباما کے جولائی میں فوج بلانے کے وعدے کی وجہ سے انہیں کچھ نہ کچھ فوج واپس بھیجنی ہی ہوگی مگر اصل تعداد کیا ہوگی ، یہ جاننے کے لئے ابھی کچھ ہفتے انتظار کرنا ہوگا ۔
پینٹا گون کے حکام افغانستان میں امریکی کامیابیوں کو اب بھی نازک اور ناپائیدار قرار دے رہے ہیں ۔ ایرک شمٹ کا کہنا ہے کہ موسم بہار اور گرما میں طالبان کی افغانستان میں سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے طالبان کے سٹرٹیجک منصوبے متاثر نہیں ہونگے ۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان کا اپنا ایک ایجنڈا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو وہ علاقہ واپس لینا ہے جو گزشتہ سال امریکی فوج کی اضافی تعداد بھیجنے کے بعد ان سے چھینا گیا تھا ۔ امریکی ملٹری انٹیلی جنس نے پہلے ہی کہا ہے کہ موسم بہار شروع ہوتے ہی طالبان کی جانب حملوں میں اضافہ ہو جائے گا خصوصا افغان حکومتی اہلکاروں کے خلاف خود کش حملے بڑھ سکتے ہیں تاکہ افغانستان کی مرکزی اور مقامی حکومت کی کمزوری نمایاں کی جائے ۔ تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کی سٹرٹیجک منصوبے پہلے ہی کام کر رہے ہیں ، ایسے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے میرے خیال صرف سیاسی طور پر فریقین کے درمیان توازن تبدیل ہوا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ میرے خیال میں طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے تاکہ کسی سمجھوتے کے وقت ان کا پلہ بھاری رہے ۔
امریکی اور نیٹو فوج کا ہدف 2014ء تک افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کے قابل کرنا ہے ۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اسی وقت ہوگا جب فوج، پولیس اور عوامی اداروں کو افغان معاشرے کا حصہ بننے کا موقعہ دیا جائے گا لیکن اس سال کے باقی ماندہ مہینوں میں افغانستان کی صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے ، اس کا اثر امریکی افواج کی واپسی کے ٹائم ٹیبل پر بھی پڑے گا ۔