|
ایران کے اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں کے غیر معمولی حملے کے بعد واشنگٹن میں اعلیٰ حکام مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک امریکی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ اس صورت حال میں کچھ نتائج کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
عہدے دار کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ہونے والے ٹیلی فون پر گفتگو میں بھی واضح کیا ہے کہ "ہمیں کشیدگی بڑھنے کے امکانات کا احتیاط اور حکمتِ عملی سے جائزہ لینا ہو گا۔" خاص طور پر اس تناظر میں کہ ایرانی حملے کی وجہ سے اسرائیل میں معمولی نقصان ہوا ہے اور کسی کی جان بھی نہیں گئی۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام کا اصرار ہے کہ ایرانی حملے کا جواب دیا جائے گا۔ تاہم ملک کی جنگی کابینہ اس بات پر منقسم دکھائی دیتی ہے کہ ایسا کب اور کیسے کیا جائے۔
SEE ALSO: کئی دہائیوں کے حریف اسرائیل اور ایران میں کب کب کشیدگی میں اضافہ ہوا؟واضح رہے کہ ایران نے کہا ہے کہ اس کا اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے کا جواب ہے۔ تہران نے خبر دار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اس کے حملے کے جواب میں کوئی کارروائی کرتا ہے تو ایرانی ردِعمل مزید شدید ہو گا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران میں غزہ جنگ کے دوران عسکری تنازعہ خطے میں وسیع تر اور طویل جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق اگر اسرائیل ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرتا ہے تو وہ اکیلا ہی جواب دے گا۔
امریکی حکومت کے سینئر اہلکار سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکہ ایرانی حملے کے کسی فوجی ردِعمل میں شرکت کرے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ "ہم کسی بھی ایسے معاملے میں مداخلت سے گریز کریں گے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
صدر جو بائیڈن نے ایرانی حملے پر مربوط سفارتی ردِعمل کے لیے گروپ آف سیون یعنی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے رہنماؤں کی اتوار کے روز ایک ویڈیو کانفرنس بلائی۔
ایران کے حملے کو پسپا کرنے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اسرائیل، امریکہ اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے 300 سے زائد ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کا روکنا ایک "ناقابل یقین فوجی کامیابی" تھی۔
دریں اثنا امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ اس نے یو ایس یورپین کمانڈ ڈسٹرائرز کے تعاون سے 80 سے زائد ڈرونز اور کم از کم چھ بیلسٹک میزائل تباہ کیے ہیں جنہیں ایران اور یمن سے اسرائیل کی طرف داغے جانے کا ارادہ تھا۔
ان میں یمن کے ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کے علاقے میں میں موجود لانچر گاڑی پر ایک بیلسٹک میزائل اور سات ڈرونز بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: ایران کے اسرائیل پر حملے پر عالمی ردِعمل؛ 'تباہ کن کشیدگی' کے خدشاتامریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ہفتے کے روز دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ دھماکہ خیز طیارے اور میزائل ایران، عراق، شام اور یمن کے علاقوں سے داغے گئے تھے۔
آسٹن نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے کسی بھی ایسے مزید اقدام سے گریز اور کشیدگی کم کرے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ "ہم ایران کے ساتھ تنازع نہیں چاہتے، لیکن ہم اپنی افواج کے تحفظ اور اسرائیل کے دفاع کے لیے کام کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔"
امریکی وزیر دفاع نے اتوار کو تیسری بار اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ کے ساتھ ہفتے کے اختتام پر فون پر بات کی۔