اوباما انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی کی نئی قومی حکمت عملی وضع کی ہے، جس کا مرکزی نقطہ یمن، پاکستان، صومالیہ اور دوسرے ملکوں میں القاعدہ اور اس سے منسلک دیگر تنظیموں کا خاتمہ ہے۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق انتظامیہ کے اعلیٰ ترین مشیر جان برینن نے بدھ کو واشنگٹن میں ایک تقریر کے دوران اس منصوبے پر گفتگو کی۔
سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق عہدے دار برینن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں بشمول پاکستان اور یمن نے القاعدہ کے مالی وسائل کو بڑھنے سے روک دیا ہے اور اس کی قیادت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
لیکن اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ سے لاحق شدید خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اُنھوں نے بتایا کہ یہ دہشت گرد نتظیم اپنے رہنما اسامہ بن لادن کی گزشتہ ماہ پاکستان میں امریکی اسپیشل فورسز کے آپریشن میں ہلاکت پر انتقامی حملے کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
برینن کے مطابق نئی حکمت عملی میں پہلی مرتبہ امریکی ہوم لینڈ کو انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکمت عملی میں القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کی امریکہ میں موجود افراد کو ملک ہی میں حملے کرنے پر اکسانے کی صلاحیت پر خاص توجی دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں امریکی فوج کے ماہر نفسیات میجر نڈال حسن ایک مثال ہیں جن پر دو سال قبل ٹیکسس میں فورٹ ہوڈ میں 13 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ حسن کو مبینہ طور پر یمن میں ایک انتہاپسند نے اکسایا تھا۔ امریکہ میں پیدا ہونے والے اس انتہاپسند کے بظاہر القاعدہ سے گہرے روابط تھے۔
برینن نے اپنے خطاب میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ’’عرب اسپرنگ‘‘ کہلائی جانے والی بغاوتوں نے القاعدہ کے نظریہ اور اس کی نئے انتہاپسندوں کو مرغوب کرنے کی صلاحیت کو کمزور کیا ہے۔
لیکن اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی حمایت کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں اور ریاستیں تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی نئی حکمت عملی میں پہلی متربہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رونما ہونے والی اہم سیاسی تبدیلوں کو مدد نظر رکھا گیا ہے۔
مزید برآں برینن کا کہنا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام بدستور باعث تشویش ہے۔