پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی پر امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کشمیر کی حالیہ صورتحال افغان امن عمل پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فور اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) نے کشمیر کی حالیہ صورتحال پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی افغان پالیسی پر پاکستان عرصہ دراز سے تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں موجودہ حالات و واقعات سے اسلام آباد کی نئی دہلی سے متعلق بدگمانی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے امن معاہدے میں تاخیر کو پاکستان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان طالبان پر زور دے سکتا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کو طول دیں۔
خیال رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی۔ جس کے بعد سے ریاست کے مواصلاتی رابطے معطل جب کہ لوگوں کی نقل و حمل بھی محدود ہے۔
سی ایس آئی ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن مذاکرات میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن کشمیر تنازع سے پاکستانی قیادت کی توجہ اور وسائل افغانستان سے ہٹ جائیں گے۔
امریکی تھنک ٹینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کو ادراک ہے کہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان نواں مذاکراتی دور گزشتہ روز دوحہ میں احتتام پذیر ہوا ہے جس کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کابل پہنچ گئے ہیں۔
ایک ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس معاہدے سے افغانستان میں تشدد میں کمی اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی۔
مذاکرات کے باوجود طالبان نے افغانستان کے مختلف شہروں میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
'افغان امن عمل ہی نہیں خطے کا مستقبل بھی خطرے میں ہے'
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ کشمیر کی حالیہ صورتحال سے افغان امن عمل کا مستقبل ہی نہیں اس سے خطے کا امن بھی خطرے میں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان تنازع کشمیر کے باعث اگر کشیدگی جنگ کی شکل اختیار کر جاتی ہے تو یہ دنیا کی تباہی کا باعث ہو گی۔
شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی توجہ بھارت کے ساتھ منسلک سرحد پر مرکوز رہتی ہے تو وہ افغانستان میں امن کے لیے زیادہ کردار ادا نہیں کر پائے گا۔ ان کے بقول بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دانستہ طور پر ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے تاکہ پاکستان کی مدد سے افغان امن عمل کامیاب نہ ہو سکے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی ان تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں کہ ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر افغان امن عمل کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا تھا عین اس وقت بھارت نے کشمیر میں انتہائی قدم اٹھایا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ہفتے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا موقع ہے کہ پاکستان امریکہ پر واضح کر دے گے افغان امن عمل کی کامیابی تنازع کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کشمیر کے حوالے سے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران پاکستان کے افغان امن عمل میں کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ کوئی منطق نہیں کہ جب جموں و کشمیر میں بھارت من مانیاں کر رہا ہے اور ایسے میں پاکستان افغان امن عمل کے لیے کردار ادا کر رہا ہے۔