بگرام کا فوجی اڈہ افغانستان کے اندر تقریباً 20 سال کے لیے امریکی فوجی طاقت کا مرکز رہا ہے۔ باڑ اور دھماکوں سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی دیواروں کے پیچھے پھیلا یہ شہر کابل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔
ابتدائی طور پر یہ اڈہ نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے انتقام کی نشانی تھا، بعد میں یہ طالبان کے خلاف لڑائی میں ایک اہم اڈے کے طور پر سامنے آیا۔
کچھ ہی دنوں میں امریکی فوجی بگرام کا اڈہ خالی کر کے چلے جائیں گے۔
اینڈریو واٹکنز، برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائیسز گروپ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بگرام ایک بڑی تنصبیاب والا فوجی اڈہ بن گیا تھا۔ اس طرح کے کچھ اور اڈے افغانستان اور عراق میں تھے۔ یہ اڈہ ’’ مشن کریپ‘‘ کی علامت تھا‘‘۔
امریکہ کی سینٹرل کمان نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ وہ بگرام سے سامان سمیٹنے کا 50 فیصد کام مکمل کر چکے ہیں اور باقی کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی انخلا غالب امکان ہے کہ چار جولائی تک مکمل ہو جائے۔ جس کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اس اڈے کا انتظام سنبھال لیں گی اور طالبان کے خلاف لڑائی میں اسے کام میں لائیں گی۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اور افغانستان کی فورسز کی لڑائی ایک نئی غیر یقینی صورت حال کو جنم دے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تفصیلی رپورٹ میں اس ہوائی اڈے کی سرد جنگ کے زمانے سے لے کر آج تک اہمیت اور یہاں مختلف ادوار میں آنے والے نشیب و فراز کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس انخلا کی بھی ایک علامتی اہمیت ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان پر حملہ آور قوت یہاں آئی ہے اور بگرام کے راستے واپس گئی ہے۔
سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں یہاں فضائی اڈہ قائم کیا۔ جب اس نے 1979 میں ایک کمیونسٹ حکومت کی مدد کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ اڈہ ملک کے اندر اپنے قبضے کے دفاع کے لیے مرکزی اڈہ بن گیا۔ دس سال تک روس کی فوج نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کے خلاف، جنہیں صدر رونلڈ ریگن نے ’فریڈم فائٹرز‘ کا نام دیا تھا، لڑائی جاری رکھی۔ صدر ریگن انہیں سرد جنگ کے آخری معرکے میں اگلے مورچوں کی فورس کے طور پر دیکھتے تھے۔
سوویت یونین نے 1989 میں اپنے انخلا پر مذاکرات کیے۔ تین سال کے بعد ماسکو حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور مجاہدین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک دوسرے پر اسلحہ تان لیا اور ہزاروں عام شہری اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گئے۔ اس تنزلی کے عالم میں طالبان اقتدار میں آ گئے جنہوں نے 1996 میں کابل کو فتح کر لیا۔
سال 2001 میں جب امریکہ اور نیٹو فورسز نے بگرام کا کنٹرول سنبھالا، یہ ایک تباہ حال عمارتوں کا مجموعہ تھا۔ راکٹوں اور شیلوں نے اس کی زیادہ تر حفاظتی باڑوں اور دیواروں کو توڑ پھوڑ کا شکار کر رکھا تھا۔ طالبان کے ساتھ لڑائی کے بعد مجاہدین جنگی سرداروں کے واپس اپنے شمالی غاروں میں جانے کے بعد یہ اڈہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔
طالبان کو کابل سے نکالنے کے بعد امریکہ کی قیادت والے اتحاد نے اپنے اتحادی جنگی سرداروں کے ساتھ مل کر بگرام اڈے کی تعمیر نو شروع کی۔ ابتداً عارضی ڈھانچہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اسے مستقل شکل دی گئی۔ یہ اڈہ بہت تیزی سے پھیلتا گیا اور تقریبا 30 مربع میل پر محیط ہو گیا۔
فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز کے ساتھ وابستہ سینئر فیلو بل روگیو اس بارے میں کہتے ہیں:
’’ بگرام اڈے کی بندش ایک بڑی علامت رکھتی ہے۔ اور یہ طالبان کی سٹریٹجک فتح ہے‘‘۔
بگرام کے بڑے فوجی اڈے پر دو رن ویز ہیں۔ تازہ ترین رن وے 12 ہزار فٹ لمبا ہے جو سال 2006 میں 96 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوا۔ وہاں 110 جنگی جہازوں کے پارک ہونے کی جگہ ہے۔ اس اڈے کو دھماکے کے خلاف مزاحمت رکھنے والی دیواروں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس اڈے پر تین بڑے شیڈز، ایک کنٹرول ٹاور اور متعدد دیگر عمارتیں ہیں۔ اس بیس پر 50 بستروں پر مشتمل ایک اسپتال بھی ہے جس میں ٹراما وارڈ ہے، تین آپریشن تھیٹرز اور جدید ڈینٹل کلینک بھی ہے۔ یہاں پر فنٹس سنٹرز اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس بھی موجود ہیں۔ اس اڈے پر ایک حصے میں جیل بھی بنائی گئی ہے۔
جوناتھن شروڈن امریکہ میں قائم ایک تحقیقی ادارے سی این اے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں میں ایک لاکھ افراد نے بگرام کے فوجی اڈے پر کافی وقت گزارا ہے۔ ان کے بقول بگرام، امریکی فوج اور کنٹریکٹروں کے جنگی تجربے کی ایک مثال ہے جنہوں نے افغانستان کے اندر خدمات انجام دیں۔
درویش رؤفی ڈسٹرکٹ گورنر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بگرام ڈسٹرکٹ میں ایک سو کے قریب دیہات ہیں جہاں باغیچے ہیں اور کھیت کھلیان ہیں۔ بگرام کا یہ فوجی اڈہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ امریکی انخلا نے، درویش رووفی کے بقول ہر گھر کو متاثر کیا ہے۔
امریکی عملہ افغانستان کی فوج کو بعض ہتھیار اور دیگر ساز و سامان دیتا رہا ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز جو وہ ساتھ نہیں لے جا رہے، اسے وہ تلف کر رہے ہیں یا بگرام کے نزدیگ کباڑیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے مطابق وہ اس بات کو ہر صورت یقینی بنا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔
گزشتہ ہفتے یو ایس سینٹرل کمان نے بتایا تھا کہ اس نے 17 ہزار 7 سو 90 آلات، C-17 کے 763 جہازوں میں مال لاد کر افغانستان سے باہر منتقل کیے ہیں۔ بگرام کے بعض دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اڈے کے اندر سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ غالباً امریکی عملہ عمارتوں اور ساز و سامان کو تلف کر رہا ہے۔
رؤفی نے کہا کہ دیہاتیوں نے ان سے شکایت کی ہے کہ امریکی صرف کاٹھ کباڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
مائیکل کوگلمین ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح بہت کچھ جلدی جلدی میں ساتھ لے جانا اور بہت کچھ تباہ کرنا امریکہ کی طرف سے اس تیزی کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یہاں سے نکلنے میں کس قدر جلدی ہے۔
’’یہ افغانستان کے عوام کے لیے اور اس فوجی اڈے کا کنٹرول سنبھالنے والوں کے لیے خیر سگالی پر مبنی کوئی تحفہ نہیں ہے۔ ‘‘ فوری طور پر سوویت یونین کے ساتھ موازنہ ذہن میں آتا ہے۔
افغانستان کے ایک ریٹائرڈ جنرل سیف اللہ صافی جنہوں نے بگرام اڈے پر امریکی فوج کے ساتھ کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ روس نے جب انخلا کا فیصلہ کیا تو وہ اپنا سب کچھ یہاں چھوڑ کر گئے۔
’’ وہ زیادہ کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔ صرف گاڑیاں لے گئے جو انہیں اپنے سپاہیوں کو روس پہنچانے کے لیے درکار تھیں ‘‘
بگرام اڈے کے اندر قائم جیل کا انتظام سال 2012 میں ہی افغانستان کو دے دیا گیا تھا۔ اب بھی اس جیل کو وہی چلاتے رہیں گے۔ جنگ کے شروع کے برسوں میں بگرام جیل، کئی افغان شہریوں کے نزدیگ، خوف کی علامت بن گئی تھی جس طرح گوانتاناموبے جیل ہے۔ اے پی کے مطابق والدین اپنے روتے ہوئے بچوں اس جیل کا نام لے کر ڈراتے تھے۔
افغانستان پر حملے کے شروع کے دنوں میں افغان شہری بنا کسی رپورٹ کے غائب ہو جاتے تھے اور ان کے پتے ٹھکانے کا اس وقت تک کچھ پتا نہیں چلتا تھا جب تک کہ ہلال احمر کی بین الاقوامی کمیٹی ان کو بگرام میں تلاش نہیں کر لیتی تھی۔ کئی شہری تشدد کی کہانیوں کے ساتھ واپس گھروں کو لوٹ گئے۔
ذبیح اللہ نے اس فوجی اڈے کی جیل میں چھ سال گزارے ہیں۔ ان کو گلبدین حکمت یار کے دھڑے کے ساتھ تعلق کے الزام میں یہاں قید رکھا گیا۔ حکمت یار ایک جنگی سردار ہیں جن کو امریکہ نے دہشت گرد پارٹی قرار دیا تھا۔ جب ذبیح اللہ کو گرفتار کیا گیا اس وقت حکمت یار کی پارٹی سے وابستگی بھی ایک جرم تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ بگرام کا لفظ سنتے ہیں، ان کے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں۔
ذبیح اللہ کو سال 2020 میں صدر اشرف غنی کے حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے بعد رہائی ملی تھی۔
تجزیہ کار روگیو کہتے ہیں کہ بگرام جیل کی حیثیت اب بھی ایک تشویش کی بات ہے۔ ان کے بقول یہاں زیادہ تر قیدیوں کا تعلق طالبان یا القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں سے ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اب بھی یہاں سات ہزار قیدی موجود ہیں۔
روگیئو کے بقول اگر یہ اڈہ فتح کر لیا جاتا ہے اور جیل ختم کر دی جاتی ہے تو یہاں قید افراد، دہشت گرد گروپوں کی طاقت میں بڑا اضافہ کر سکتے ہیں۔