افغانستان کی حکومت، امریکہ اور اقوام متحدہ بغلان صوبے میں بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے والے دس رضاکاروں کی ہلاکت کی مذمت کر رہے ہیں اور افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے ایک بیان میں طالبان کو بغلان میں پیش آنے والے اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے والے رضاکاروں کے قتل کے ذمہ دار طالبان ہیں: صدر غنی
غنی نے کہا ہے کہ طالبان نہ صرف بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے والوں کو ہدف بنا رہے ہیں بلکہ ان کے گروپ نے طالب علموں اور عام شہریوں کو بھی ہدف بنایا ہے۔
طالبان اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر رہے ہیں۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے مطابق بارودی سرنگوں (آئی ای ڈی) کو ناکارہ بنانے کا کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ہالو ٹرسٹ‘ کے رضا کاروں کو شمالی افغانستان کے صوبے بغلان میں قائم کیمپ میں نقاب پوش افراد نے نشانہ بنایا۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد افغان شہری ہیں۔
یہ افراد غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کا کام کرتے تھے۔ پولیس کے مطابق مسلح افراد نے ان رضا کاروں کو ہلاک کرنے سے قبل ایک کمرے میں جمع کیا اور پھر ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔
طالبان کی بغلان حملے میں ملوث ہونے کی تردید
طالبان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور تاحال کسی اور گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ بارودی سرنگیں صاف کرنے والوں پر حملے کا ان کے گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہم نہتے افراد پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اس اقدام کو سفاک خیال کرتے ہیں۔
ان کے بقول طالبان کے این جی اوز کے ساتھ تعلقات نارمل ہیں اور مجاہدین کبھی بھی ایسے حملے نہیں کریں گے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں ریذیڈنٹ اینڈ ہیومن کوآرڈینیٹر رامز الاکبروف نے 'ہالو ٹرسٹ' پر حملے کی مذمت کی ہے اور واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ورکروں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے اور ان پر حملہ کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔
لڑائی اور مذاکرات ساتھ ساتھ
ادھر افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ افغان نیشنل سیکیورٹی کے خلاف لڑائی میں طالبان کی حالیہ کامیابیوں کی وجہ یہ نہیں ہے کہ طالبان مضبوط ہیں، بلکہ ان کے بقول افغان سیکیورٹی فورسز جنگی حکمت عملی کے تحت خود پیچھے ہٹی ہیں اور بہت جلد ان اضلاع پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیں گی جن پر طالبان نے حالیہ دنوں میں قبضہ کر لیا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان روح اللہ احمد زئی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا ہے کہ افغان فورسز عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹی تھیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق طالبان نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 17 اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔ اور ان میں سے کئی ایک اضلاع افغان سکیورٹی فورسز نے خالی کر دیے تھے۔
افغان متحارب فریقوں کی دوحہ میں ملاقات
ایسے میں جب افغانستان میں عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے، متحارب فریقوں کی مذاکراتی ٹیموں نے منگل کے روز قطر کے شہر دوحہ میں ملاقات کی ہے۔ دونوں ٹیموں نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق اس ملاقات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے امن بات چیت کے عمل کو تیز کرنے اور امن مذاکرات کے ایجنڈے پر گفتگو کی ہے۔
پاکستان کے انکار کے باوجود امریکہ کو اڈے دینے سے متلعق قیاس آرائیاں جاری
اس کے باوجود کہ پاکستان کے حکام نے واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کو پاکستان کے اندر فوجی اڈے فراہم نہیں کریں گے، افغانستان کی پارلیمنٹ کے کئی اراکین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ماضی کی طرح اس بار بھی امریکہ کو اڈے فراہم کر دے گا لیکن اس کے انکار کی وجہ ان کے بقول ملک کے اندر انتہا پسند گروپوں کی فعال موجودگی ہے۔
SEE ALSO: 'انخلا کے بعد افغانستان سے امریکی اڈے پاکستان منتقل نہیں ہو رہے'افغان پارلیمنٹ کی رکن نسیمہ نیازی نے کہا ہے کہ پاکستان نے اس وقت بھی امریکہ کو اڈے فراہم کیے تھے جب امریکہ نے افغانستان میں آپریشن شروع کیا تھا۔
سید سادات انصاری بھی افغان پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس معاملے پر کھلے عام بات نہیں کر سکتا کیونکہ انتہا پسند گروپ اس بات کو حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔
افغان ایوان زیریں کے رکن رمضان بشر دوست کا بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کو اڈے فراہم نہیں کرتا تو بھارت کر سکتا ہے اور، ان کے بقول، پاکستان یہ کبھی نہیں چاہے گا۔
پاکستان کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اسلام آباد نے باضابطہ طور پر امریکہ کو بتا دیا ہے کہ وہ واشنگٹن کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا جہاں سے افغانستان کے اندر انسداد دہشتگردی کا آپریشن جاری رکھا جا سکے۔
افغانستان پاکستان کے مذببی راہنماوں کا ’آن لائن اجلاس‘
افغانستان سے شائع ہونے والے انگریزی کے اخبار افغانستان ٹائمز کے مطابق سعودی عرب اور اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کی ایما پر بدھ کو افغانستان اور پاکستان کے علمائے کرام زوم کے ذریعے آن لائن اجلاس میں شریک ہوئے۔
اخبار نے وزارت مذہبی امور کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان عہدیدار بھی اس کانفرنس میں شریک ہو نا تھے۔ وزارت کے ترجمان ناصر حسین کے مطابق، اجلاس میں اسلامی ممالک کی تنظیم، اور افغانستان اور پاکستان کے وزرا برائے مذہبی امور کی شرکت بھی طے تھی۔
یہ ورچوئل اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کے اسلامی سکالروں نے افغان جنگ کو ناجائز اور اسلامی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔