پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان پر کوئی امریکی دباؤ نہیں ہے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کا اعلان کر رکھا ہے جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان امریکہ کو اپنے فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔
تاہم پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے بڑی واضح پالیسی اپنائی ہوئی ہے کہ ہم صرف امن میں شراکت دار ہوں گے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل کے لیے ہمارا کردار ایک سہولت کار کا ہو گا۔ لیکن افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے سب سے زیادہ ذمے داری افغان دھڑوں پر عائد ہوتی ہے۔
ان کے بقول پاکستان ایک خوش حال، متحد اور خود مختار افغانستان کا خواہاں ہے اور پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ اٖفغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے دوران تشدد میں اضافہ تشویش ناک ہے جب کہ بین الافغان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔
وزیر خارجہ قریشی نے کہا کہ اس وقت زیادہ ذمے داری افغان دھڑوں پر عائد ہو گی کہ وہ مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو سلجھائیں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے 'آئی ایس آئی' کے سربراہ کے حالیہ دورۂ کابل پر اُنہیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل آگے بڑھے۔
وزیر خارجہ قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے طالبان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔
ان کے بقول طالبان اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے فہرست سے اپنا نام خارج کرانا چاہتے ہیں تو انہیں تشدد کو چھوڑ کر سیاسی تصفیے کی طرف بڑھنا ہو گا۔
'پاکستان کسی ایک افغان فریق یا دھڑے کے ساتھ نہیں ہے'
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی امن و مصالحت اور خوش حالی کے ساتھ ہے۔ تاہم ہم کسی ایک افغان فریق یا دھڑے کے ساتھ نہیں ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے عید کے موقع پر افغانستان میں طالبان کی طرف سے تین روزہ جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ "تشدد میں کمی بہت ضروری ہے۔ اگر بات چیت کرنی ہے تو تشدد کو کم کرنا ماحول کو سازگار بناتا ہے۔ یہ سازگار ماحول کے لیے ایک اچھی پیش رفت ہے اور پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔"
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے آئندہ دورۂ پاکستان کی تیاری کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا سعودی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ جس کے بعد سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ فیصل بین فرحان السعود بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
جنرل باجوہ کے دورۂ افغانستان سے متعلق افغان صدارتی محل کا بیان
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے پیر کو ایک روزۂ دورہ کابل پر افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے بھی بیان جاری کیا گیا ہے۔
افغان صدر کے نائب ترجمان محمد امیری نے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر نے برطانوی چیف آف آرمی اسٹاف کی موجودگی میں پاکستانی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ افغان امن عمل، پاکستان افغانستان تعلقات، پاکستان کا طالبان پر اثرو رسوخ سمیت دیگر معاملات پر گفتگو کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران اشرف غنی نے پاکستانی آرمی چیف سے کہا کہ وہ افغان امن عمل کے لیے مخلصانہ کوششیں کریں۔