عالمی بینک، آئی ایم ایف کے اجلاس کی تیاریاں

(فائل فوٹو)

واشنگٹن میں اگلے ہفتےعالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی موسمِ بہار کی میٹنگ ہونے والی ہے جس میں حکومتوں کے بڑھتے ہوئےقرض کے بوجھ کے مسئلے اور عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت پر غور کیا جائے گا۔ عالمی اقتصادی بحالی کے امکانات مشرقِ وسطیٰ میں بے چینی اور ہنگاموں اور جاپان میں زلزلے سے معیشت کی تباہی کہ وجہ سے اور زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

عالمی بینک اور آئی ایم ایف یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ارکان اگلے ہفتے واشنگٹن میں جمع ہوں گے تو ناگہانی آفتیں جیسے جاپان میں زبردست زلزلہ اور سونامی جن کی وجہ سے وہاں نیوکلیئر پاور پلانٹس میں تباہی آئی ہے اور سیاسی بے چینی جس نے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ان کے پیشِ نظر ہوں گی۔ مارکس نو لینڈ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ان امور پر خصوصی توجہ دی جائے گی کیوں کہ اقتصادی ترقی نہ صرف علاقے کے لوگوں کے لیے اہم ہے بلکہ امکان یہ ہے کہ عالمی سطح پر بھی ان کے زبردست اثرات ہوں گے۔‘‘

ممکنہ اثرات میں تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ بھی شامل ہے اور اس سے دنیا کی معیشت ایک بار پھر سست ہو جائے گی۔ اگرچہ اندازہ یہ ہے کہ عالمی معیشت اس سال کچھ سست رفتاری سے آگے بڑھے گی تاہم آئی ایم ایف کے سربراہ، ڈومینک سٹراؤس خان کہتے ہیں کہ بحالی کا عمل متوازن نہیں ہے۔ چین اور دوسری ابھرتی ہوئی معیشتیں مغربی ملکوں کی معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جاپان سے ہٹ کر دیکھیں تو لمبے عرصے کے لیے، یورپی ملکوں کے مستقبل کا سوال اہم ہے۔ ان میں کچھ ملک ، مالیاتی شعبے کے مسائل کی وجہ سے، قرضوں کے مسائل سے دوچار ہیں۔‘‘

میٹنگ سے پہلے، پرتگال نے جس کا شمار یورو زون کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے، اپنے قرض کے بے تحاشا بوجھ سے نمٹنے کے لیے مدد مانگی ہے۔ یورپی یونین کا یہ تیسرا ملک ہے جن سے bailout کی درخواست کی ہے۔ معاشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ممکن ہے بعض اور ملک بھی ایسا ہی کریں۔ سٹراؤس خان کہتے ہیں کہ ان چیلنجوں کی وجہ سے، رکن ممالک کے درمیان اور زیادہ توازن ضروری ہو گا۔ ان کے مطابق ’’مِل جل کر کام کرنے کی خواہش اور جوش و جذبہ تو اب بھی موجود ہے، لیکن یہ اتنا مضبوط نہیں جتنا دو برس پہلے تھا اور میرے لیے یہ بڑی تشویش کی بات ہے کیوں کہ ظاہر ہے کہ ہمیں تعاون کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

عالمی بنک کے صدر رابرٹ زیلک

عالمی بنک کے صدر رابرٹ زیلک نے ایک نیا سوشل کنٹریکٹ تجویز کیا ہے، ایسا کنٹریکٹ جس میں انفرادی شہریوں کی زندگیوں پر عالمی پالیسیوں کے اثرات کو مد نظر رکھا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اپنے کلائینٹس کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ سیاسی نظام چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، جب تک آپ کے ملک کا نظم و نسق اچھا نہیں ہوگا، اور آپ کے شہری شرکت نہیں کریں گے، آپ ترقی کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

مارکس کا کہنا ہے کہ ’’انھیں کچھ چیزیں کرنا ہوں گی۔ آئی ایم ایف کو خاص طور سے اس ایجنڈے پر عمل جاری رکھنا ہو گا جو Seoul کی G20 سربراہ کانفرنس میں رکھا گیا تھا اور جسے اس سال کے آخر میں کینز کی سربراہ کانفرنس میں جاری رکھا جائے گا۔ اس ایجنڈے میں نظامِ حکومت میں داخلی اصلاحات کرنا نیزعالمی مالیاتی نظام کو مضبوط بنانا شامل ہے، خاص طور سے جب جب ترقی پذیر ملک مالیاتی بحران سے نکلنے کے اقدامات کر رہے ہوں۔‘‘

زیلک کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرنے میں اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا غلط اقدامات کرنے میں۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایسی اصلاحات کریں جن سے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے کے منصوبے تیار کریں۔ توقع ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ قواعد و ضوابط میں اصلاحات کی اہمیت پر زور دے گا تاکہ عالمی مالیاتی استحکام میں اضافہ ہو اور غریب اور امور کے درمیان فرق کم ہو جائے۔