لگ بھگ 62 سال قبل 1957ء میں شائع ہونے والے ناول پر بنائے گئے ڈرامہ سیریل 'خدا کی بستی' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی ذہین طاہرہ 69 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئی ہیں۔
وہ پاکستان کی ٹیلیویژن ڈراما انڈسٹری کی ایک بڑی آرٹسٹ کے طور پر پہچانی جاتی تھیں۔
ذہین طاہرہ کی پہچان بننے والا ڈرامہ 'خدا کی بستی' 1969ء کے بعد 1974ء میں دوبارہ ٹیلی کاسٹ ہوا اور مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑتا ہوا 1990ء میں ایک بار پھر پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔
ٹی وی انڈسٹری کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ایسی مقبولیت شاید ہی کسی اور ڈرامہ سیریل کو میسر آئی ہو۔
ڈرامے کی کاسٹ میں ذہین طاہرہ کے علاوہ سہیل اصغر، قاضی واجد، ظفر مسعود اور بہروز سبزواری جیسے نامور اداکاروں نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
اس ڈرامے کی کہانی کی مقبولیت کی وجہ جہاں معاشرے میں اس وقت پائے جانے والے سماجی مسائل کو غیر روایتی انداز میں پیش کرنا تھا وہیں ڈرامے کی کاسٹ نے اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ سبھی تعریف کرتے نظر آئے۔
بھارت کے شہر لکھنؤ میں 1949ء میں آنکھ کھولنے والی ذہین طاہرہ نے ایک، دو نہیں بلکہ 600 سے زائد ڈراموں میں اداکاری کی اور تقریباً ہر کردار میں ہی ناظرین سے داد وصول کی۔
ان کے یادگار ڈراموں میں کرن کہانی، منزل، آئینہ، چاندنی راتیں، عروسہ، دیس پردیس اور کبھی کبھی پیار میں جیسی مشہور ڈرامہ سیریلز سرِ فہرست ہیں۔
ان کے زیادہ تر ڈرامے سماجی ناہمواریوں، معاشرتی رویوں اور عام گھریلو کہانیوں سے متعلق تھے جن میں سے بیشتر میں ذہین طاہرہ کا کردار بہت طاقت ور تھا۔
ٹی وی انڈسٹری میں آپا کے نام سے مشہور ذہین طاہرہ گلوکاری کا بھی شوق رکھتی تھیں اور انہوں نے کئی مواقع اور تقریبات میں اپنی گلوکاری سے بھی لوگوں کو محظوظ کیا۔
نامور اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا ہے کہ ذہین طاہرہ اپنے نام کی طرح واقعی ذہین، زندہ دل اور کام میں بہت ہی پرفیکٹ خاتون تھیں۔ ان کے ساتھ جہاں کام کرنے کے مواقع ملے وہیں ان کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بھی رہا۔
ہر کسی سے انتہائی محبت اور شگفتگی سے پیش آنا ذہین طاہرہ کا خاصہ تھا۔ ذاتی زندگی کے مسائل کو بھی انہوں نے بہت ہی بڑے دل کے ساتھ جھیلا۔ بیٹی کو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے اور بہو کے انتقال کے باوجود بھی وہ اتنی ہی مضبوط رہیں جیسے پہلے تھیں۔
اپنے اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کے ساتھ وہ حقیقت میں ڈرامہ انڈسٹری کی چند ایسی شخصیات میں شامل تھیں جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا۔
بشریٰ انصاری کے مطابق فن اور فن کی قدر کرنے والے ہی آپا ذہین طاہرہ کی کمی کو حقیقی معنوں میں محسوس کر سکتے ہیں۔
بشریٰ انصاری کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے فن سے منسلک رہیں اور شاید ہی کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو کہ انہوں نے کسی کے ساتھ تلخ کلامی یا ڈانٹ ڈپٹ کی ہو۔
ذہین طاہرہ کے ساتھیوں کے مطابق انہوں نے ڈراموں میں جو کردار بھی نبھائے وہ امر ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پاکستان ٹیلیویژن کی سب سے معتبر اداکارہ مانا جاتا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں 2013ء میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا تھا۔
معروف مصنفہ اور ڈرامہ رائٹر حسینہ معین کے مطابق ذہین طاہرہ کا خلا کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔ ان کے مطابق، وہ اپنے پیچھے شاہکار اداکاری کی انمول میراث چھوڑ کر گئی ہیں۔ ایسے اداکار اب کم ہی پیدا ہو رہے ہیں اور اداکاروں سے بھی زیادہ ان جیسی اعلیٰ شخصیت کے لوگ بھی معاشرے میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
حسینہ معین کے بقول، ذہین طاہرہ کو انہوں نے انتہائی نفیس اور گھریلو خاتون پایا۔ ذہین طاہرہ نے کرن کہانی سمیت حسینہ معین کے لکھے گئے کئی ڈراموں میں کام کیا، اور بقول مصنفہ، اپنے کردار کا حق ادا کیا۔
ذہین طاہرہ نے ٹی وی ڈراموں کے علاوہ اپنے کیریئر میں ریڈیو اور چند ایک فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ان کی پہچان ٹی وی ڈرامہ ہی بنا۔
وہ کافی عرصے سے دل کے عارضے کا شکار اور دو ہفتوں سے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ تاہم، منگل کی صبح اچانک ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی تھی جس کے بعد وہ جانبر نہ ہوسکیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اداکارہ ذہین طاہرہ کے انتقال پر لوگ بڑی تعداد میں افسوس کا اظہار کر رہے ہیں اور انہیں اردو ڈرامہ انڈسٹری کے لیے شاندار فنی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔