پچیس نومبر کا دن ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال خواتین پر تشدد روکنے کے لئے ایک سولہ روزہ آگاہی مہم چلائی گئی۔ ہمارے نئے ڈیجیٹل شو عین مطابق کا موضوع بھی یہی تھا۔ یہ شو آپ ہر پیر کی رات نو بجے وی او اے اردو کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر براہ راست یا آن ڈیمانڈ دیکھ سکتے ہیں۔ زیر نظر تحریر اس شو کی میزبان اور صحافی ندا سمیر کی ہے ۔
خواتین پر تشدد روکنے کے موضوع پر ہمارا شو دیکھنے کے لئے یو ٹیوب لنک پر کلک کیجئے:
ایک اچھا مرد ایک برے مرد کو روک سکتا ہے؟: تحریر ندا سمیر
میرا ذہن بار بار اس بات کی طرف جا رہا ہے کہ جس دنیا میں آج عورت کی حفاظت، آزادی اور حقوق پر تقاریر ہو رہی ہونگی، اسی دنیا میں آج کتنی ہی عورتیں زیادتی کا شکار ہو رہی ہوں گی، کتنی قتل ہوئی ہوں گی، کتنی اس دن سے بےخبر تشدد کا شکار ہونے کے باوجود اپنے اذیت رساں کے ساتھ ہی سو رہی ہوں گی، کتنوں کی تقدیر کے فیصلے ان کے 'حاکمین' نے ان کی مرضی کی ضرورت محسوس کئے بغیر ہی کر دیے ہوں گے۔
مجھے آج مختاراں مائی کا بھی خیال آ رہا ہے۔ اس ملک کی فضاؤں میں سانس لینا اسے کیسا محسوس ہوا ہوگا، جہاں محض عورت ہونے کے ناطے اس نے بدلے کے طور پر وہ قرض اتارا 'جو واجب ہی نہیں تھا'. کیا گزری ہوگی اس کے دل پر، جب اسے تباہ کرنے والے ایک ایک کرکے عدالت سے رہا ہونے کے بعد اسی کے سامنے آزادی سے دندناتے پھرتے ہونگے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا سوچا ہوگا اس نے جب ظلم اور بربریت کی انتہا سے گزرنے پر دو بول ہمدردی کے بجائے اس کے ملک کے صدر نے بڑی آسانی سے کہہ دیا ہوگا کہ 'لوگ کہتے ہیں جلد امیر ہونا ہو یا کینیڈا کا ویزہ چاہیئے ہو تو اپنا ریپ کروا لیں'۔
آج حیدرآباد کی قرة العین بلوچ بھی یاد آرہی ہے جسے ابھی چار ماہ پہلے ہی اس کے شوہر نے اس کے بچوں کے سامنے پیٹ پیٹ کرہلاک کر دیا تھا۔ اسے تو نہ اپنی ملازمت کا زعم تھا نہ پیسے کا گھمنڈ، نہ ہی اس نے 'میرا جسم میری مرضی' کا نعرہ لگایا تھا، وہ تو چار بچوں کی ماں، ایک گھریلو عورت تھی۔
کیا قرت العین اذیت کے لمحوں میں یہ سوچ رہی ہوگی کہ کاش اس کا شوہر ہمیشہ کی طرح مار مار کر تھک جائے تو اس کی جان چھوٹ جائے؟ یا اس کی نظروں میں اپنے گھر والوں کے چہرے گھوم رہے ہونگے جن کو وہ بارہا اپنی آپ بیتی سنا چکی تھی مگر نہ جانے وہ معاشی مصلحت یا سماجی کہ اس کے گھر والوں نے اسے اس کے شوہر کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیا۔
آج قندیل بلوچ بھی یاد آرہی ہے۔ مجھے کبھی اس کی وڈیوز نہیں بھائیں مگر اسے جینے کا اتنا ہی حق تھا جتنا مجھے یا کسی بھی دوسرے شہری کو۔ اپنے ہی سگے بھائیوں کو اپنا گلا دباتے دیکھ کر کیا سوچا ہوگا اس نے؟ اور کیا سوچا ہوگا اس کی روح نے جب اس کے ماں باپ نے اپنے بیٹوں کو بیٹی کے قتل پر معاف کر دیا ہوگا؟ کیسے بھول گئے وہ کہ یہی قندیل ان کا گھر چلاتی تھی۔ بیٹوں سے بڑھ کر ان کا سہارا تھی۔ ماں باپ سے محبت کرتی تھی اوران بھائیوں سے بھی جنہوں نے اس کی سانسیں اکھاڑیں؟۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہماری یاد داشتیں بھی قندیل کے والدین جیسی ہی ہیں۔ ہمارے لئے بھی عورتیں، خواہ وہ قندیل ہو، نور ہو، مختاراں ہو یا قرة العین ہو، ان کی حیثیت شماریات کے کسی ہندسے، کسی ہیش ٹیگ سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو آج صورتحال ایسی نا ہوتی۔
بہت سے مہربان اس بات سے ناراض ہونگے، مگر رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے میں پاکستان کو خواتین کے لئے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی سسٹین ایبل سوشل ڈوویلپمنٹ آرگنائزیشن کی تحقیق کی مطابق سال کے صرف پہلے چھ ماہ میں گھریلو تشدد کے پنجاب میں 325 جبکہ سندھ میں 126 کیسز، ریپ کے پنجاب میں 1819 اور سندھ میں 158 کیسز، خواتین کے اغوا کے پنجاب میں 6954 جبکہ سندھ میں 1601 کیسز، خواتین پر تشدد کے پنجاب میں 3721 جبکہ سندھ میں 346 کیسز اور غیرت کے نام پر قتل کے پنجاب میں 107 جبکہ سندھ میں 77 کیسز درج کئے گئے۔ یہ اعداد شمار صرف دو صوبوں کے ہیں اور یہ بھی حتمی نہیں کیوں تشدد، گھریلو تشدد اور ریپ سمیت کتنے ہی کیسز رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے۔
سال دو ہزار بیس میں نومبر کے ماہ تک صرف لاہور میں پولیس نے 83 خواتین کے قتل کے کیس رجسٹر کئے۔ ان تمام کا محرک ایک تھا- "غیرت"۔
آج ٹوئٹر دیکھیں تو ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے
JusticeForNosheenKazmi#
ہم بہت جلد بھول جائیں گے کہ بظاہر خودکشی کا کیس نظر آنے والی چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کی نوشین کی لاش ہوا میں معلق نہیں تھی، اس کے پیر میز پر ٹکے ہوئے تھے۔ ہم بھول جائیں گے کہ نوشین کا خواب تو ڈاکٹر بننا تھا، وہ ایم بی بی ایس کی چوتھے سال تک پہنچ گئی تھی۔
ہم بھول جائیں گے نوشین کاظمی کو بھی۔کیونکہ ہم بھول چکے ہیں اس نمرتا چندانی کو جس کا بے جان بدن اسی ہوسٹل کے کمرے کی اک چھت سے دو سال قبل لٹکتا پایا گیا تھا۔ مسخ شدہ کمزور شواہد کی وجہ سے نمرتا کا کیس بھی ان ہزاروں بے نام عورتوں کے کیسز میں گم ہوگیا جنہیں مر کے بھی انصاف شاید کبھی نہ مل پائے
Your browser doesn’t support HTML5
خواتین پر ظلم میں کبھی گھر والے خاموش تو کبھی وہی چھت اس کے لئے غیر محفوظ ہے۔ جو شکایت کرتی ہیں، انہیں پہلے پولیس کا رویہ، تفتیش میں تساہل اور پھر سالہا سال عدالتوں میں لاحاصل پیشیوں کی صورت میں اپنی جرات کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
سماجیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے ساتھ ظلم اور زیادتی بند ہو اس کے لئے پدرسری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ بچوں کی تربیت کے وقت ہی یہ سکھانا ضروری ہے کہ 'عورت اک مکمل انسان ہے، جو وہی خواص اور حسیات رکھتی ہے جو دوسرے انسان رکھتے ہیں'۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے خود پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے کترانے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت خودمختار نہیں ہوتی، سر سے چھت چھن جانے کے اور در بدر ہوجانے کے خوف سے وہ ظلم سہتی رہتی ہیں۔ فلاحی ریاستوں کی طرح پاکستان میں بھی اگر خواتین کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری شیلٹر ہومز موجود ہوں جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ قیام کر سکیں اور جہاں انہیں خود مختار بنانے کے لئے ہنر سکھائے جا سکیں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔دوسرا خلل نظام انصاف کا ہے۔ کبھی پولیس کا تضحیک آمیز رویہ اور مظلوم کو ہی قصور وار ٹھہرانا، تو کبھی تفتیش میں عدم دلچسپی کیس کو کمزور بنا دیتی ہے۔
جب یہ سب نہ بھی ہو تو عدالتوں میں کیسز کی بھرمار کی وجہ سے باری کا انتظار کریں یا پیشیاں بھگتتے رہیں۔ انصاف کا دیر سے ملنا انصاف نہ ملنے جیسا ہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسکول کی سطح پر قانون نافذ کرنے والوں اور عوامی نمائندوں کو بھی، صنفی مساوات اور صنفی حساسیت کے بارے میں ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خواتین کے حقوق کے علمبردارکہتے ہیں کہ ملک کا سربراہ ملک کی خواتین کا بھی سربراہ ہے۔ اس کا کہا ایک ایک لفظ وزن رکھتا ہے۔ اگر کسی ملک کا سربراہ ہی یہ کہے کہ 'ملک سے باہر جانے کا آسان طریقہ ہے کہ ریپ کروا لو' یا پھر 'عورتوں کے کم کپڑوں کا اثر مردوں پر ہوگا، وہ روبوٹ تو نہیں' تو پھر نظام میں صنفی برابری اور صنفی احترام کے معیار پر شبہات، خدشات، تفکرات اور سوالات کا جنم لینا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوسکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں آتشیں اسلحہ کی فروخت کے حامی اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک اچھا مسلح شخص ایک برے مسلح شخص کو روکنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ دلیل قابل بحث ہے مگر ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ ایک اچھا مرد ایک برے مرد کو ضرور روک سکتا ہے۔ ایک اچھا مرد خود سے متعلق عورتوں کو برابری کے حقوق دے کر معاشرے میں مثال قائم کر سکتا ہے۔ ایک اچھا مرد پڑوس سے آتی عورت کی چیخ و پکار کو سن کے گھر کی گھنٹی بجا کر بارعب آواز میں ضرور پوچھ سکتا ہے کہ 'سب ٹھیک ہے؟' ایک اچھا مرد ایک کامیاب بیوی پر شرم نہیں فخر محسوس کرسکتا ہے۔ ایک اچھا مرد خواتین کے کپڑوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی نظروں پر قابو رکھ سکتا ہے۔
ایک اچھا مرد ایک بہتر ملک اور صحت مند معاشرہ بنا سکتا ہے۔