ایف آئی اے اور پولیس نے ضلع مظفر گڑھ میں نوجوان کو نازیبا ویڈیو سے بلیک میل کرنے اور مبینہ طور پر قتل کرنے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ لڑکے کو بلیک میل کرنے والے دو ملزمان کو ایف آئی اے نے حراست میں بھی لے لیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق حالیہ واقعے میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور ان کی ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرنے والوں کا یہ پورا گروہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلعے مظفر گڑھ کے علاقے خان گڑھ میں گیارہویں جماعت کے طالب علم 16 سالہ لڑکے کو اس کی نامناسب ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا جا رہا تھا۔
ویڈیوز منظرِ عام پر آنے پر لڑکے نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی یا اسے مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔ پولیس اور ایف آئی اے اِس سلسلے میں تحقیقات کر رہا ہے۔
’وہ با اثر لوگ ہیں‘
خان گڑھ کے رہائشی لڑکے کے والد بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ایک گروہ ہے جو لڑکوں اور بچوں سے ریپ کر کے اُن کی ویڈیوز بنا لیتا ہے۔ جو بعد ازاں بچوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ایسا کرنے والے با اثر لوگ ہیں جو متاثرہ لڑکوں کو نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کچھ لوگوں نے جنسی زیادتی کی اور اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادتی کرنے والے لوگ ویڈیوز بنانے کے بعد اسے بلیک میل کرتے تھے اور دھمکی دیتے تھے کہ اگر دوبارہ انہیں جنسی عمل نہیں کرنے دیا گیا تو وہ ویڈیو وائرل کر دیں گے۔
ان کے بقول ان کا بیٹا گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ جو ملزمان کی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے ڈر سے ان کی بات مانتا رہا۔ اس کا علم انہیں بیٹے کی موت کے بعد ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ بیٹے کی موت کے بعد انہیں شبہ ہوا تو ملتان جا کر بیٹے کے فون کا لاک کھلوایا۔ جس پر معلوم ہوا کہ فون میں ان کے بیٹے کے ساتھ مبینہ زیادتی کی ویڈیوز، ملزمان کے بلیک میلنگ کے پیغامات اور دیگر مواد موجود تھا۔
لڑکے کے والد نے تھانہ خان گڑھ پولیس کو دی جانے والی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے کو چار سے زائد ملزمان نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور زہر دے کر قتل کیا ہے۔
والد کے مطابق درخواست دینے کے باوجود پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کی موت سے قبل وہ اِن تمام باتوں سے بےخبر تھے۔ اسی لیے انہوں نے بیٹے کی موت کے بعد پولیس کو کارروائی سے منع کر دیا تھا۔ مگر اب تفصیل سامنے آنے پر پولیس اور ایف آئی اے سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس اب ان کی بات نہیں سن رہی۔
لڑکے کے والد نے دعوٰی کیا کہ ان کے علاقے خان گڑھ میں اور بھی بہت سے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن ان کے والدین ڈر اور شرم کے مارے آواز نہیں اٹھاتے۔
ان کے مطابق موت سے تین چار ماہ قبل ان کا بیٹا ہر وقت پریشان رہتا اور گھر والوں سے کم ہی بات کیا کرتا تھا۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ملتان سائبر کرائم ونگ نے لڑکے کو بلیک میل کرنے والے چھ ملزمان کے خلاف سائبر کرائم ونگ ملتان میں چھ اگست کو مقدمہ درج کر لیا تھا۔
ایف آئی اے کے مطابق مقدمے میں نامزد دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزمان سے موبائل فونز اور دیگر شواہد بھی تحویل میں لے لیے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے لڑکے کی ہلاکت کی وجوہ جاننے کے لیے ڈی پی او مظفرگڑھ کو کیس ارسال کیا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ہلاکت کا معاملہ سائبر کرائم ونگ کے دائرہٴ اختیار میں نہیں آتا۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر مظفر گڑھ حسن اقبال بتاتے ہیں کہ پولیس نے واقعہ علم میں آتے ہی قانونی کارروائی شروع کر دی تھی اور فوری طور پر رپورٹ درج کر لی گئی تھی۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لڑکے کی موت کے تین دِن بعد اِس کے گھر والوں نے پولیس سے رابطہ کیا جس پر پولیس نےدفعہ 174 کے تحت کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ قبر کشائی کی گئی ہے اور تمام ٹیسٹ فرانزک کے لیے بھجوا دیے ہیں جس میں معلوم ہو جائے گا کہ لڑکے کی ہلاکت زہر کھانے سے ہوئی یا کسی اور وجہ سے۔
ویڈیو کی فروخت اور بلیک میلنگ
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سائبر کرائم انچارج ملتان زون شعیب ہارون نے بتایا کہ لڑکے کی عمر 15 یا 16 سال کے قریب تھی جس کی دوستی 32 سال سے 35 سال کے افراد کے ساتھ تھی جن میں سے ایک شخص نے لڑکے کے ساتھ زیادتی کر کے ویڈیو بنا لی تھی۔
شعیب ہارون نے بتایا کہ مذکورہ شخص اور ایک اور ملزم اُس ویڈیو کی بنا پر لڑکے کو اپنے پاس بلاتے اور زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔
اُن کے مطابق کچھ عرصے بعد ملزمان نے لڑکے سے پیسے مانگنے شروع کر دیے تھے اور رقم کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اِسی طرح ملزمان نے کچھ پیسوں کے عوض لڑکے کی ویڈیو دوسرے افراد کو دے دی۔ جو لڑکے کو بلیک میل کر کے زیادتی کے لیے بلاتے رہتے۔
سائبر کرائم انچارج ملتان کے مطابق لڑکے کی ویڈیو پانچ ہزار روپے سے 10 ہزار روپے تک آگے فروخت ہوتی رہی اور ہر خریدار اسے بلیک میل کر کے زیادتی کے لیے اپنے پاس بلا لیتا۔ یہ سلسلہ تین سے چار ماہ چلتا رہا۔ اس دوران لڑکا ڈپریشن کے عالم میں رہا۔
شعیب ہارون نے مزید بتایا کہ دورانِ تفتیش لڑکے کے والد نے بتایا کہ بیٹے کی موت سے قبل ایک دِن اُس کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکے نے ملزمان کے ساتھ رات کا کچھ وقت گزارا۔ اس کے علاوہ وہ دن میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ تک ان کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد لڑکے نے اپنے بہنوئی کو فون کیا کہ وہ فلاں جگہ پر ہے۔ اس کی طبیعت بہت خراب ہے اور بہنوئی سے کہا کہ اُسے آ کر لے جائیں۔
شعیب ہارون نے مزید بتایا کہ جب لڑکے کا بہنوئی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو لڑکا بے ہوش پڑا تھا۔ اسے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اسپتال میں کچھ دیگر داخل رہنے کے بعد لڑکے کی موت ہو گئی اور اِس کے گھر والوں نے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار دیا اور بعد ازاں اس کی تدفین کر دی گئی۔
ویڈیو لیک
ایف آئی اے کے سائبر کرائم انچارج ملتان زون شعیب ہارون نے کیس سے متعلق مزید بتایا کہ لڑکے کی موت کے بعد گھر آنے والے افراد نے چہ مگوئیاں شروع کر دیں کہ فلاں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اِسی دوران ملزمان نے لڑکے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو اُس کی بہن کو بھیج دی اور اُسے ڈرانے دھمکانے لگے کہ دیکھو تمہارے بھائی کا کیا حال ہوا ہے۔
شعیب ہارون کے مطابق اِس پر بچے کے والد نے لڑکے کا موبائل چیک کرایا تو اس میں سب چیزیں موجود تھیں جس میں بلیک میلنگ والے پیغامات، اسکرین شاٹس، زیادتی کی ویڈیو اور دیگر مواد موجود تھا۔
اس کے بعد لڑکے کے والد دوبارہ پولیس کی پاس گئے تو اُنہوں نے اِن کی بات سنی اَن سنی کر دی جس کے بعد انہوں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔
ایف آئی اے کی کارروائی
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ملتان سائبر کرائم ونگ نے اس کیس کا سراغ لگانے کے لیے گزشتہ ہفتے چھ اگست کو کارروائی کی۔
اس کارروائی میں چائلڈ پورنو گرافی، طالبات اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے اور نازیبا میٹریل سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے چھ ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم انچارج ملتان شعیب ہارون نے لڑکے کے کیس کے بارے میں بتایا کہ کیس کی مزید تفتیشن جاری ہے۔ ایف آئی اے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے جب کہ بعض ملزمان مفرور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے تحقیق کر رہی ہے کہ آیا یہ کوئی باقاعدہ گروہ ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔
ان کے مطابق ملتان کے علاقے میں بہت سے کیس ایسے آ رہے ہیں جس میں متاثرہ شخص یا خاتون کو یہ معلوم نہیں کہ اُس کی سیلفی، تصاویر یا ڈیٹا کہیں اور استعمال ہو رہا ہے۔
ایک اور کارروائی کے بارے میں شعیب ہارون نے بتایا کہ فورٹ منرو میں ایک سرکاری اسپتال میں خاتون فارماسسٹ کا لیپ ٹاپ دوسرے افراد بھی استعمال کر رہے تھے۔ جہاں سے خاتون کی بعض تصاویر اس کے ماتحت اسٹاف نے لیک کر دیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں یہی لوگ ورچوئل نمبر سے اسے بلیک میل کرنے لگے۔ ایف آئی اے کے علم میں آنے کے بعد ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ایف آئی اے کے مطابق حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے کیسز کسی باقاعدہ منظم گروہ کی کارروائی ہے یا نہیں ادارہ اس پہلو پر تحقیق کر رہا ہے۔ البتہ اس بارے میں تاحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ایف آئی اے کے مطابق بچوں کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بنانے سے متعلق تمام کیسز سائبر کرائم ونگ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم ونگ کے قوانین 2016 میں بنائے گئے تھے۔
چائلڈ پورنوگرفی کی سزا کیا ہے؟
انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بچے کی برہنہ تصاویر یا ویڈیوز بناتا ہے تو ایسا کرنے والا، ایسی تصاویر یا ویڈیوز فروخت کرنے والا، اسے اپنے پاس رکھنے والا اور اسے منتقل کرنے والا شخص جرم کا مرتکب ہو گا۔
اس جرم کی سزا سات سال قید یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
اسی طرح کسی بالغ شخص کی فحش تصویریں اور ویڈیوز بنانا، انہیں پھیلانا یا فروخت کرنا بھی جرم ہے۔ اس کی سزا تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
اگر کوئی شخص سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر کسی کو ہراساں کرتا ہے۔ نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ یا ایسا عمل کرتا ہے جس سے متاثرہ شخص یا خاتون کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو ایسا کرنے والے شخص کو تین سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
واضح رہے اِس سے قبل پنجاب میں قصور، جھنگ، نارووال اور سرگودھا کے اضلاع میں پورنوگرافی سے متعلق کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اضافہ
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان میں 49 فی صد لڑکے اور 51 فی صد لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔
ساحل کی سال 20-2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف 2960 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا، لاپتا بچے اور بچپن میں شادیوں جیسے جرائم شامل ہیں۔
ساحل نے 2020 کی رپورٹ رواں برس اپریل میں جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز کی شرح میں چار فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔