پولیس نے اسلام آباد میں ایک خاتون پولیس اہل کار سمیت 20 سے زائد خواتین کو مبینہ زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنانے والے شخص کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جنونی شخص کو زیادتی کا شکار ہونے والی تین خواتین نے شناخت کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق خواتین سے جنسی زیادتی کی یہ وارداتیں زیادہ تر اسلام آباد کی مصروف ترین شاہراہ ایکسپریس وے فیض آباد سے کورال چوک تک کے علاقے میں ہوئیں۔ یہاں مرکزی شاہراہ سے غوری ٹاؤن اور دیگر آبادیوں کے درمیان موجود گرین بیلٹ میں اس شخص نے متعدد خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس علاقے کے ڈی ایس پی رخسار مہدی نے کہا کہ ملزم ظہیر احمد ایک انتہائی خطرناک ملزم ہے جو اب 'سیریل ریپسٹ' بن چکا ہے۔ اس ملزم کے بیان کے مطابق اسے خود بھی بچپن میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اب یہ ایک طرح سے بدلہ لے رہا ہے۔
رخسار مہدی کا کہنا تھا کہ یہ ملزم اسلام آباد پولیس کی لیڈی کانسٹیبل پر حملے میں ملوث ہے، حملہ سے قبل کئی روز تک یہ شخص اس کی ریکی کرتا رہا۔ پہلے پولیس خاتون اہل کار کو یونیفارم کی وجہ سے لڑکا ہی سمجھتا رہا۔
اُن کے بقول بعد ازاں قریب سے اس نے دیکھا کہ یہ لڑکی ہے جس کے بعد اس نے لیڈی کانسٹیبل پر حملہ کیا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنا کر نازک اعضا پر وار کر کے شدید زخمی بھی کر دیا۔
ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے پولیس نے بتایا کہ ملزم اتنی زیادہ وارداتوں کے بعد بھی نہ پکڑے جانے کی وجہ سے بے خوف اور ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہوگیا تھا۔ کئی وارداتوں میں شکار بننے والی خواتین نے پولیس سے بھی رابطہ نہیں کیا اور بدنامی کے خوف سے خاموش ہو گئیں۔
لیکن دو ہفتے قبل ہونے والی ایک واردات میں متاثرہ خاتون نے، جو صبح آٹھ بجے کے قریب اپنے دفتر جارہی تھی، اس ملزم کی زیادتی کا نشانہ بنی۔
اس سوال پر کہ صبح کے آٹھ بجے مصروف ترین شاہراہ سے چند گز کے فاصلے پر جہاں لوگ گزرتے رہتے ہیں، ایسی واردات کیسے ممکن ہوئی؟
رخسار مہدی کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون کے مطابق، اس کی چیخ و پکار اور ملزم کی جانب سے اسے گھنے جنگل میں لے جانے کی کوشش کے باوجود گاڑیوں میں سوار افراد اور راہگیروں نے رک کر مداخلت نہیں کی۔
اس خاتون کی درخواست پر دورانِ تفتیش جائے وقوعہ کے قریب کچھ لوگوں نے بتایا کہ اسی حلیے کا شخص کچھ اور خواتین کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے جس پر پولیس نے سادہ کپڑوں میں پولیس اہل کار تعینات کر دیے۔
ایک ہفتے بعد خاتون کے بتائے حلیہ سے مطابقت رکھنے والے ظہیر احمد کو پکڑا تو اس نے کچھ ہی دیر میں اپنے جرائم کا اعتراف کرنا شروع کردیا۔
پولیس کے تفتیشی حکام کے مطابق یہ ملزم اس قدر نڈر ہو چکا تھا کہ ایک واقعہ میں چار بہنیں اکٹھی جا رہی تھیں کہ اس نے ان میں سے ایک کو اٹھا کر جنگل میں کھینچنے کی کوشش کی تاہم باقی بہنوں کی طرف سے پتھر مارنے اور چیخ و پکار پر ملزم بھاگ گیا۔ ملزم خواتین کے پرس سے قیمتی چیزیں اور پیسے بھی نکال لیا کرتا تھا۔
پولیس نے ملزم کا پانچ روزہ ریمانڈ حاصل کیا تھا، جہاں بتایا جاتا ہے کہ تین ایف آئی آرز میں متاثرہ خواتین نے ملزم کو شناخت کر لیا ہے۔