روس پر لازم ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلے: امریکی سفیر

فائل

مسکراتے ہوئے، روس میں امریکی سفیر جان ہنٹس من نے کہا ہے کہ ’’آپ کبھی کسی منزل یا وقت‘‘ کا تعین ٹھیک سے نہیں کر سکتے۔

وہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ ہفتے ولادیمیر پوٹن کو کی گئی متنازع ٹیلی فون کال کے حوالے سے بات کر رہے تھے، جس میں اُنھوں نے دوبارہ منتخب ہونے پر روسی سربراہ کو مبارکباد دی تھی۔

ٹیلی فون کال پر وائٹ ہاؤس کے مشیر حیران ہوئے تھے، جو اس بات کے خواہاں تھے کہ ٹرمپ کو چاہیئے تھا کہ وہ تعریفی الفاظ نہ ادا کرتے۔ اِس سے روس اور امریکہ میں غلط توقعات پیدا ہو سکتی ہیں۔

برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کو زہر دیے جانے کے معاملے پر شاید دو درجن مغربی ملک جوابی کارروائی کے معاملے پر مربوط مہم کا حصہ نہ بنتے، جس کا برطانیہ نے روس پر الزام دیا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں، جس میں اُن سے یہ پوچھا گیا کہ امریکہ روس تعلقات کس مقام پر کھڑے ہیں، ہنٹس من نے کہا کہ ٹرمپ روس سے متعلق حکمت عملی کے معاملے پر مستقل مزاجی سے کام لے رہے ہیں۔

بقول اُن کے ’’میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ جہاں تک میں نے روس کے معاملے پر صدر کے ساتھ بات کی ہے، جب میں اُن سے ملا تھا جب اُنھوں نے مجھے یہ عہدہ سونپا، وہ ہمیشہ مستقل مزاج لگے کہ روس سے بات چیت ہو، چیلنجوں کا معاملہ اپنی جگہ، وہ یہی چاہتے ہیں کہ مکالمہ جاری رہنا چاہیئے اور بہتر طور پر آگے بڑھنا چاہیئے‘‘۔

لیکن، اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ’’ملک کے سربراہ کے طور پر وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ بات چیت ہو اور ملاقاتیں جاری رہیں جس کی بنیاد پر اہمیت کے حامل معاملات پر پیش رفت حاصل ہو۔ میرا تعلق نجی شعبے سے ہے اور میں نے متعدد ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ صدور کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ نتائج برآمد ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ کیا کچھ ہو چکا ہے، کس قسم کی پیش رفت ہوئی ہے، مثال کے طور پر، یوکرین اور اسی طرح کے معاملات پر۔ وہ تنائج حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ تعلقات کس جانب جا رہے ہیں۔‘‘

ہنٹس من پُرعزم ہیں، حالانکہ اُنھوں نے سفارت کا عہدہ ایسے وقت سنبھالا ہے جب سرد جنگ جیسا طوفان جاری ہے۔