پاکستان میں حزب اختلاف نے مالیاتی ضمنی بل (منی بجٹ) لانے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے منظوری میں اس کی حمایت نہیں کرسکتی۔
حزبِ اختلاف نے اعلان کیا ہے کہ جمعرات کو قومی اسمبلی سے منی بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان کے اندر مزاحمت کی جائے گی جب کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی کیمپ بھی لگایا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر بحث کے دوران حزبِ اختلاف نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل کی منظوری سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا جس پر حکومتی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ اس بل سے عام آدمی کے متاثر ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔
حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ ماہ کے آخر میں ضمنی مالیاتی بل اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بلز قومی اسمبلی میں پیش کیے تھے۔
قومی اسمبلی سے مالیاتی بل کی منظوری میں مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان کی درخواست پر آئی ایم ایف نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رواں ہفتے ہونے والا اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی ٹیکسوں میں عائد چھوٹ ختم کرنے اور مزید ٹیکس عائد کرنے سے مشروط کر رکھی ہے اور مذکورہ بل میں انہی چیزوں کا ذکر ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومت و اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں بلا لیا ہے جس میں مالیاتی ضمنی بل کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔
SEE ALSO: کیا حکومتِ پاکستان کے پاس منی بجٹ لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ تھا؟امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق قانونی بل پر جمعرات کو ایوانِ زیریں میں ووٹنگ کرائی جائے گی۔
حزبِ اختلاف نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ اس موقع پر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے منی بجٹ کی منظوری کے دن پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ایوان زیریں میں قلیل اکثریت رکھنے والی حکومت کو اس بل کی منظوری کے وقت ایوان میں اراکین کی مطلوبہ تعداد کو حاضر رکھنا یقینی بنانا ہوگا۔ گزشتہ سال نومبر میں حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی میں دو قانونی بلوں کی منظوری پر حکومت کو شکست دی تھی۔
مالیاتی بل کے خلاف اپوزیشن کیا کر سکتی ہے؟
جمعرات کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ "منی بجٹ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا لہذا حکومت اسے واپس لے کر ترامیم کے ساتھ پیش کرے تو اپوزیشن اس بل کی حمایت کر سکتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو انہوں نے میثاقِ معیشت کی بات کی تھی لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور آج پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ حزبِ اختلاف حکومت کو معاشی پالیسیوں پر بار بار تنبیہ کرتی رہی مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ منی بجٹ پر حزبِ اختلاف کی جانب سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مزاحمت کی جائے گی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کا معاہدہ عوام کا معاشی قتل ہے اور منی بجٹ کی منظوری سے ٹیکسوں کا سونامی لایا جا رہا ہے۔
ان کے بقول، "حکومت معاشی پالیسی میں ابہام کا شکار رہی اور اگر حکومت اپوزیشن سے مل کر معاشی پالیسی بناتی تو آج تباہی نہ ہوتی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے عوام دشمنی دیکھی، غریب دشمنی دیکھی مگر یہ حکومت تو ملک دشمنی پر اتر آئی ہے۔ زرعی بحران کے وقت 17 فی صد ٹیکس لگانے سے کسانوں کا معاشی قتل ہوگا۔
تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ضمنی مالیاتی ترمیمی بل میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہی بلکہ کئی اشیا پر حاصل چھوٹ ختم کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے حزبِ اختلاف کے جواب میں کہا کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیا تھا اور قومی معاملات کو بھی سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بتائیں کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کتنے میثاق معیشت کیے۔
اسد عمر کے بقول، "تحریک انصاف کے دور میں ملکی معیشت نے ترقی کی ہے اور جنوری میں ہماری مجموعی پیداوار پانچ فی صد تک بڑھ جائے گی۔"
وفاقی وزیر حماد اظہر نے بھی قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عالمی منڈی کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا پڑیں تاہم پاکستان میں یہ قیمت اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ عوام تک حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ بات پہنچاتے رہیں گے۔
حکومت یا اپوزیشن؟ قومی اسمبلی میں کس کا پلڑا بھاری؟
پارلیمانی امور کے صحافی صدیق ساجد کہتے ہیں کہ مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر حزبِ اختلاف اگرچہ اس پر احتجاج کرے گی لیکن یہ بل ایوان سے منظور ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منی بجٹ کو صرف قومی اسمبلی سے منظور ہونا ہے اور اگر عددی صورتِ حال کو دیکھیں تو ایوان زیریں میں حکومت کو 178 کے قریب اراکین کی حمایت حاصل ہے جب کہ حزبِ اختلاف کے پاس 156 اراکین ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ منی بجٹ کی منظوری صرف اسی صورت میں مسترد ہو سکتی ہے کہ حکومت کے اتحادی اس کے حق میں ووٹ نہ کریں تاہم ان کے بقول ایسا ابھی دکھائی نہیں دیتا۔
صدیق ساجد نے کہا کہ حزبِ اختلاف نے حکومتی اتحادی جماعتوں سے رابطے کے لیے کمیٹی بنائی ہے جس نے انفرادی طور پر ناراض اراکین سے رابطے تو کیے لیکن اتحادی جماعتوں کی قیادت سے اجتماعی رابطہ نہیں کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ضرور ہے کہ اگر حکومت منی بجٹ کی منظوری کے وقت سادہ اکثریت یعنی 172 اراکین کو پورا نہیں کرپاتی تو یہ اخلاقی شکست ہوگی اور حزبِ اختلاف کے لیے عدم اعتماد کی تحریک کی طرف جانے میں راہ ہموار ہوگی۔