پاکستان میں درجنوں 'وی پی این' بلاک؛ حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟

  • ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو آئی پی ایڈریس کے ذریعے بلاک کیا جا رہا ہے۔
  • حالیہ عرصے میں مفت وی پی این استعمال کرنے والے افراد کے بینک اکاؤنٹس کی معلومات لیک ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
  • رواں سال اگست میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اٹھارٹی ( پی ٹی اے) نے وی پی این کے استعمال پر سختی شروع کر دی تھی۔
  • پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) تک رسائی کو ’بلاک‘ کرنے پر حکومت پر تنقید کی ہے۔

اسلام آباد -- پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پاکستان میں غیر رجسٹرڈ وی پی این بلاک کرنا شروع کر دیے ہیں۔

پی ٹی اے کا اس بارے میں کہنا ہے کہ تیکنیکی خرابی کی وجہ سے حالیہ دنوں میں وی پی این کے استعمال میں تعطل آیا تھا۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا ویب مینجمنٹ سسٹم اس وقت فعال ہو چکا ہے اور حکومت اس وقت بعض ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کو بند کر رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو آئی پی ایڈریس کے ذریعے بلاک کیا جا رہا ہے۔ اس وقت وی پی این بند ہونے کی شکایت انٹرنیٹ پر دستیاب مفت وی پی این کے لیے زیادہ ہیں جب کہ ادائیگی کے بعد حاصل ہونے والے وی پی این پر بند ہونے کی شکایات بہت کم ہیں۔

اس بارے میں حکومتی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز سیکیورٹی رسک ہیں۔ غیر رجسٹرڈ، غیر قانونی وی پی اینز سے حساس ڈیٹا اور غیر قانونی مواد تک کسی کی بھی رسائی ہو سکتی ہے۔

حالیہ عرصے میں مفت وی پی این استعمال کرنے والے افراد کے بینک اکاؤنٹس کی معلومات لیک ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں جن کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

پی ٹی اے کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد وی پی اینز رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں متعدد انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے انٹرنیٹ سروسز میں دشواری کے ساتھ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) تک محدود رسائی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

خیال رہے کہ وی پی این اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ملک میں کوئی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن بند ہو اور کوئی شخص کسی ایپلی کیشن کو استعمال کرنا چاہتا ہو تو ان وی پی اینز کے ذریعے ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ماضی میں پاکستان میں وی پی این کا استعمال سب سے زیادہ اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب پاکستان میں توہین آمیز ویڈیو کی وجہ سے یوٹیوب کو ہی بلاک کر دیا گیا تھا۔

تاہم بعد میں یوٹیوب کھولنے کے بعد اس کے استعمال میں کمی آئی اور اب گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے سوشل میڈیا سائٹ 'ایکس' بند ہونے کی وجہ سے وی پی اینز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

وی پی این کی فراہمی میں تعطل اتوار کے روز سامنے آیا تھا اور اس بارے میں مختلف ویب سائٹس پر بتایا گیا کہ مفت وی پی این سروسز فراہم کرنے والی ایپس کام نہیں کر رہیں۔

اس بارے میں ترجمان پی ٹی اے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پی ٹی اے کی طرف سے کوئی جواب تاحال نہیں دیا گیا۔

رواں سال اگست میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اٹھارٹی ( پی ٹی اے) نے وی پی این کے استعمال پر سختی شروع کر دی تھی جس کا مقصد پہلے سے پابندی کا شکار مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’ایکس‘ تک رسائی کو محدود کرنا تھا۔

'فری وی پی اینز کو بلاک کیا جا رہا ہے'

انٹرنیٹ سروس پروائیڈر ایسوسی ایشن کے چیئرمین راجہ شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب تک پی ٹی اے کی طرف سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

البتہ بیشتر فری وی پی این کام نہیں کر رہے۔ لیکن ادائیگی کے بعد حاصل ہونے والے وی پی این کام کر رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ مفت وی پی اینز کی آئی پیز کو بلاک کیا جا رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'انٹرنیٹ ہی روزگار ہے، اسے بند کردیں گے تو ہم کہاں سے کھائیں گے؟'

انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کی طرف سے رجسٹریشن کروانے کا کہا جا رہا ہے جس کے بعد اب تک 20 ہزار سے زائد افراد رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ادائیگی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے وی پی این پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا اور اگر کسی شخص کے پاس ادائیگی والا وی پی این ہے تو رجسٹریشن کے بغیر بھی وہ کام کر رہا ہے۔

اس سوال پر کہ پی ٹی اے کے پاس رجسٹریشن کروانے سے کیا ڈیوائس رجسٹرڈ ہوتی ہے یا سروس پروائیڈ کرنے والا سرور رجسٹر ہوتا ہے؟

راجہ شہزاد کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کے پاس رجسٹرڈ کروانے سے سرور رجسٹر ہوتا ہے۔ پی ٹی اے کی طرف سے دیے گئے پورٹل پر جب آپ بتا دیتے ہیں کہ اس سرور پر وی پی این استعمال کیا جا رہا ہے تو اس سرور کو اجازت دے دی جاتی ہے اور اس پر جتنی بھی ڈیوائسز استعمال ہوں تو انہیں وی پی این استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وی پی این کا استعمال زیادہ تر پاکستان میں سوشل میڈیا سائٹ 'ایکس' کو استعمال کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ وی پی این کو بعض خطرناک مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر رجسٹرڈ کروا لیا جائے تو کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد زیادہ تر پیڈ وی پی این استعمال کرتے ہیں کیوں کہ مفت وی پی این میں جب جب اسے کوئی ادارہ بلاک کرتا ہے تو وہ آئی پی ایڈریس تبدیل کر لیتا ہے۔

بار بار آئی پی ایڈریس تبدیل ہونے کی وجہ سے بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایسے یوزر کا اکاؤنٹ معطل کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے 'فائیور' اور دیگر فری لانس کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے پیڈ وی پی این استعمال کرتے ہیں۔

اپوزیشن کی تنقید

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) تک رسائی کو ’بلاک‘ کرنے پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کو ختم کی کھلی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے وی پی اینز کو ’بلاک کرنے‘ پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔

وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سروس میں مسلسل رکاوٹوں سے ٹیکنالوجی کے شعبے بشمول آئی ٹی کمپنیوں، سافٹ ویئر ہاؤسز، فری لانسرز اور بینکوں پر تباہ کن نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔

شفافیت پر سوالات کیوں اُٹھ رہے ہیں؟

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں شفافیت کا عنصر نہ ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں وی پی این بند ہونے کے بارے میں پی ٹی اے نے کہا ہے کہ تیکنیکی خرابی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ لیکن وہ خرابی کیا تھی وہ نہیں بتائی جا رہی۔

ہارون بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے لوگ وی پی این اپنی سیکریسی کے لیے استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے ان کے زیرِ استعمال ڈیوائسز کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔

لیکن اب حکومت کی طرف سے یہ بھی بند کیا جا رہا ہے اور اس بارے میں کوئی آگاہی بھی نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ وی پی این کی وائٹ اور بلیک لسٹنگ کا معاملہ تشویش ناک ہے کہ انہیں کن بنیادوں پر وائٹ یا بلیک کہا جا رہا ہے۔

اس عمل کے لیے فائر وال استعمال نہیں کی جا رہی بلکہ آئی پی ایڈریسز کو ہی بلاک کر دیا جائے گا جس کے بعد وہ وی پی این ایپس کام نہیں کریں گی۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں انٹرنیٹ میں تعطل اور سپیڈ نہ ہونے کی شکایات ایک عرصے سے سامنے آ رہی ہیں جس پر پی ٹی اے کی طرف سے عمومی طور پر کوئی ردِعمل نہیں دیا جاتا۔

صارفین کئی ماہ سے انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور مسلسل منقطع رہنے کی شکایت کر رہے ہیں جس پر زیرِ سمندر کیبل کٹ جانے اور دیگر تیکنیکی وجوہات کا بتایا جاتا ہے۔