پچھلے کچھ برسوں سے امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں واقع کیتھولک یونیورسٹی میں مسلمان طلبا کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی میں جس کا نہ صرف نام ہی نہیں بلکہ وہاں پڑھائے جانے والے مضامین بھی عیسائیت کےحوالے سے ترتیب دیے جاتے ہیں، وہاں مسلمان طالب عملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کئی لوگوں کے لیے حیرانی کاباعث بن رہی ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف کیتھولک چرچ ، امریکہ کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں مسیحی طالب علموں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ روحانیت اور مذہب کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں صرف مسیحی ہی نہیں بلکہ مسلمان طلبا کے لیے بھی مواقعوں میں اضافہ ہورہاہے۔
یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک مسلمان طالبہ ریف السبانا کہتی ہیں کہ ایک مذہبی ماحول میں آپ اپنے مذہب سے بھی قریبی تعلق محسوس کرتے ہیں۔
وہ دن میں تین سے چار نمازیں کسی خالی کلاس روم میں پڑھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہاں بہت خاموشی اور سکون ہوتا ہے۔ مجھے یہ نماز پڑھنے کے لیے بہترین جگہ لگتی ہے۔
ریف سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کیتھولک یونیورسٹی کی قدامت پسندی نے یہاں داخلہ لینے پر مائل کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ قدامت پسندی کی روایات جو مجھے پسند ہیں، وہ اس یونیورسٹی کا بھی خاصہ ہیں۔
ریف ان مسلمان طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہیں ہیں جنھوں نے امریکہ کے دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں اس یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔
کرسچن میکا یونیورسٹی کے ایڈمیشن آفس کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ وہ کیتھولک عیسائی نہیں ہیں ، لیکن انھیں اس یونیورسٹی میں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے میں آسانی نظر آتی ہے۔
ویام ال سالمی ایک عام یونیورسٹی سے یہاں آئی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہاں انھیں بہت اچھا محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہاں مذہبی طرز زندگی ہے۔
ویام کا کہنا ہے کہ ماحول مذہبی ہے، اور یہاں جو روایتی انداز سکھایا جا تا ہے میں انھی روایات کے ساتھ پلی بڑھی ہوں ۔ میں جب نماز پڑھتی ہوں تو یہ ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں۔
پچھلےپانچ برس میں اس یونیورسٹی میں مسلمان طلبا کی تعداد 41 سے بڑھ کر 91 ہو گئی ہے ۔ جن میں بڑی تعداد سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی ہے۔
تانتھ فلاور یونیورسٹی کے گلوبل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے خیال سے یہ اس وجہ سے ہے کہ ہماری یونیورسٹی کے یہان واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے سے اچھے تعلقات ہیں۔ جس کے لیے ہم مل کر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس یونیورسٹی میں مختلف رنگ و نسل کے طلبا کو داخلہ دیا جائے۔ یونیورسٹی کے پادری ، جوڈ ڈینجیلو کا کہنا ہے کہ اس کوشش سے مختلف عقائد کے لوگوں کو قریب لانے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے باہمی فرق کے باوجود ہم خدا کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے ایک خدا کو سمجھ سکتے ہیں۔
کینی وہائٹ ایک کیتھولک طالب علم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک مسلمان دوست ہے اور اسے نماز پڑھتا دیکھ کر ان کا اپنا عقیدہ بھی مضبوط ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس چیز نے متاثر کیا ہے۔ وہ ایک دیندار مسلمان ہے اور اسی چیز نے اپنے عقیدے پر میرا ایمان بھی مضبوط کیا ہے۔
ایک اور مسلمان طالبہ ویام کا کہنا ہے انھیں اس یونیورسٹی میں روحانیت کا درس ملا جب کہ ان کے اساتذہ نے بتایا کہ وہ اپنے فارغ وقت میں بائبل پڑھتے ہیں ۔
ویام کہتی ہیں میرے لیے یہ بہت تقویت کی بات ہے کہ میں بھی یہ کر سکتی ہوں۔ میں بھی اپنے فارغ وقت میں قرآن لاکر کہیں بھی بیٹھ کر اسے پڑھ سکتی ہوں ۔
دیکھنے میں تو یہ تمام طالب علم بہت مختلف نظر آتے ہیں، لیکن مسلمان طلبا کا کہنا ہے انہیں اس یونیورسٹی میں اپنے عقائد اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنا آسان محسوس ہوتا ہے۔