امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی آئندہ ہفتے شروع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی سیکیورٹی کے لیے پولیس فورس اعلیٰ سطح کی تیاری میں مصروف ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے شدت پسندوں کی، جو گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے نتائج سے خوش نہیں ہیں، کے لیے مواخذے کی کارروائی اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔
حکام انٹیلی جنس ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات ظاہر کرنے میں تعامل برت رہے ہیں۔ یہ معلومات سوشل میڈیا پر شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تبادلۂ خیال پر مبنی ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں 6 جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے چڑھائی کے واقعے کے بعد، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے، حکام سیکیورٹی کے سلسلے میں مکمل طور پر تیار رہنا چاہتے ہیں۔
جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی کی ہوم لینڈ سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رجریگز نے قانون سازوں کو مطلع کیا تھا کہ فی الوقت واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی کی موجودگی دکھانی ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بڑی تعداد میں سیکیورٹی کی موجودگی اس بات کو ممکن بنائے گی کہ میٹرو پولیٹن پولیس ڈپارٹمنٹ کسی بھی ہنگامی حالت کی صورت حال میں شہر کے ہر حصے میں سیکیورٹی پہنچا سکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہر کسی بھی صورت میں تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دوران اٹھائے گئے سیکیورٹی کے اقدامات واپس اور سڑکوں سے رکاوٹیں اگرچہ ہٹا لی گئی ہیں۔ مگر اضافی سیکیورٹی کے اقدامات، جن میں مختلف مقامات پر خاردار تاریں شامل ہیں، مستقبل میں بھی موجود رہیں گی۔
کیپیٹل پولیس کی ترجمان ایوا ملاکی نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بذریعہ ای میل ایک بیان میں کہا تھا کہ محکمے کی جانب سے سیکیورٹی کے سلسلے میں لیے گئے اقدامات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مستقبل میں سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوران، جب کہ کانگریس اور کیپیٹل سے متعلق مسلسل دھمکیوں کے پیشِ نظر اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی اقدامات برقرار رہیں۔
امریکہ کی فوج نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ حلف برداری کی تقریب کے دوران طلب کیے گئے 27 ہزار فوجی اہلکاروں میں سے سات ہزار اہلکار وسط مارچ تک دارالحکومت میں موجود رہیں گے۔
حکام کا مزید کہنا ہے کہ نیشنل گارڈ، جو جز وقتی فوجی اہلکاروں پر مبنی فورس ہے، بھی مقامی فورسز کی مدد کے لیے تیار رہیں گے۔ جب کہ انہیں مواصلات اور ہجوم کو کنٹرول کرنے میں مدد دیں گے۔
اس کے علاوہ مئیر واشنگٹن نے درخواست کی ہے کہ پانچ سو نیشنل گارڈ اسٹینڈ بائے کے طور پر تیار رہیں۔ تاکہ کسی بھی فوری ضرورت کے وقت انہیں طلب کیا جا سکے۔
پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ محکمے کا خیال ہے کہ اس کی ابھی بھی ضرورت ہے۔ اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ ابھی بھی امریکہ بھر میں ماحول خطرناک ہے اور یہ حالات اگلے کئی ہفتوں تک جاری رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہی صورتِ حال دارالحکومت کی بھی ہے۔
اس وقت زیادہ تر توجہ ایسے قانونی مظاہروں کی جانب مرکوز ہے جنہیں بقول حکام کے بعض افراد کی جانب سے استعمال کیا جا سکتا ہے جو تشدد اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہوم لینڈ سیکیورٹی نے نیشنل ٹیررازم ایڈوائزری سسٹم کے نام سے ایک نئے بلیٹن کا اجرا کیا ہے جس میں پر تشدد مقامی شدت پسندوں کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے جن کے حوصلے بلیٹن کے بقول چھ جنوری کو امریکی دارالحکومت پر چڑھائی کے بعد پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ جب کہ وہ حکام اور سرکاری عمارتوں پر حملے کر سکتے ہیں۔
اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے چیف ایگزیکٹو جوناتھن گرین بلاٹ نے، جو امریکہ میں شدت پسند گروہوں پر نظر رکھتے ہیں، جمعرات کو قانون سازوں کو آگاہ کیا کہ امریکی کانگریس پر چڑھائی سفید فام شدت پسندوں کے لیے ایک سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔
انہوں نے ایوانِ زیریں کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کے ارکان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے کانگریس کے ارکان کا ٹیبلوں کے نیچے چھپنا، کانفیڈریٹ جھنڈوں اور نازی علامات کا عمارت میں داخل ہونا کسی فتح سے کم نہیں ہے۔
ماہرین کو خدشات ہیں کہ ایسے افراد جو ابھی تک شدت پسند نہیں ہوئے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابات میں شکست سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہو گا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے کے لیے کاؤنٹر ٹیررازم اور تھریٹ پریوینشن کی سابقہ اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ نیومین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان دہشت گرد تحریکوں اور تنظیموں سے منسلک نہیں ہیں مگر وہ اس وقت بہت کمزور حالت میں ہیں۔
ان کے بقول ہم یہ مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ نیو نازی سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کو اپنے نظریات کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کھل کر سامنے نہیں آتے۔ آپ کو علم نہیں ہوتا کہ آپ سفید فام شدت پسند سے بات کر رہے ہیں۔
ماہرین اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ ممالک اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے رجریگز کے مطابق ہمارے دشمن، خصوصاً روس اس ثقافتی کشمکش پر عشروں پر مبنی خفیہ طریقۂ کار کو استعمال کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ریاستی حکام صدر جو بائیڈن کی حلف برداری اور دارالحکومت پر چڑھائی سے بھی پہلے ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔