|
واشنگٹن _ امریکی حکام نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ اچانک تبدیلیاں کسی کمزوری کی علامت ہیں۔ حکام نے امریکہ کے حریفوں کو کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے کے خلاف متنبہ بھی کیا ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے میڈیا بریفنگ کے دوران اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کے مخالفین کو حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے دوبارہ سوچنا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور حریفوں کو اس کے مخالف خیال کو ترک دینا چاہیے۔
میتھو ملر نے مزید کہا کہ مخالفین کو جب درست سمجھیں گے جواب بھی دیں گے۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے حکام نے زور دیا ہے کہ امریکہ کے مخالفین کچھ بھی کرنا چاہتے ہوں امریکی فوج اس کے لیے تیار ہے۔
SEE ALSO: چین کے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے بھارت امریکہ دفاعی تعاون ایکٹ متعارفوزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا ہمارے مخالف اس خاص وقت پر ہمارا امتحان لے رہے ہیں یا نہیں تو وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ صرف اس فطرت کا اظہار ہے کہ امریکہ کے مخالفین کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں۔ "مجھے نہیں لگتا کہ یہ وقت کوئی مختلف ہے۔"
واشنگٹن کا یہ انتباہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ صدارت کے لیے نائب صدر کاملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
بائیڈن نے جمعرات کو قوم سے خطاب میں الیکشن سے دستبردار ہونے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہماری جمہوریت کو بچانے کی راہ میں کچھ بھی نہیں آسکتا۔"
SEE ALSO: ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ: امریکی قومی سلامتی کو در پیش خطرات میں اضافے کا اندیشہعوامی خدشات میں اس وقت اضافہ ہوا جب امریکی فوج نے بائیڈن کی تقریر سے تھوڑی دیر پہلے اعلان کیا کہ پہلی بار روسی اور چینی طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسٹرٹیجک بمبار طیاروں نے شمال مغربی امریکی ریاست الاسکا سے 350 کلو میٹر فاصلے کے اندر ایک مشترکہ تربیتی مشن اڑایا ہے۔
امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے بدھ کے روز قانون سازوں کو بتایا تھا کہ ایران اب بھی ٹرمپ اور ان کے کچھ مشیروں کے خلاف جنوری 2020 میں اسلامی انقلابی قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ چاہتا ہے۔
ٹرمپ کے خلاف مبینہ قتل کی سازش کی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کسٹوفر رے نے کہا کہ ہمیں ایرانی حکومت کی امریکہ میں ڈھٹائی کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ متوقع طور پر اس معاملے پر مزید کچھ سامنے آئے گا۔
بعض لوگوں نے ایران کی پراکسی فورسز کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں بحیرۂ احمر اور خلیج عدن میں بین الاقوامی جہاز رانی پر یمن کے حوثیوں کے جاری حملے یا عراق اور شام میں امریکی فوجیوں پر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے حملے شامل ہیں۔
SEE ALSO: واشنگٹن میں نیٹو سربراہان کا اجلاس: چین سے روس کی معاونت بند کرنے کا مطالبہحوثیوں کے معاملے پر پینٹاگان کی ایک پریس بریفنگ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل سی کیو براؤن جونیئر نے جمعرات کو کہا، "ہم حوثیوں سے ان کی صلاحیت چھین رہے ہیں۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں صرف ایک فوجی آپریشن سے زیادہ کی کوشش درکار ہوگی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس کوشش میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنا اور حوثیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف آلات استعمال کرنے میں امریکی ایجنسییوں کے درمیان بھی تعاون شامل ہوگا۔
ادھر محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکی سفارت کار بڑے سے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے اہل ہوں گے۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا صدر بائیڈن نے وزیرِ خارجہ اور قومی سلامتی ٹیم کے دوسرے ارکان پر واضح کیا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ وہ باقی کے چھ ماہ کے اقتدار کے دوران اپنے کام پر پوری طرح توجہ مرکوز رکھیں گے۔
صدر نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ انتظامیہ کی طرف سے شروع میں بیان کیے گئے خارجہ پالیسی کے ان مقاصد کو آگے بڑھائیں گے جن پر گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں کام کیا گیا ہے۔
وزیر دفاع آسٹن نے کہا کہ اگر کوئی مخالف امریکہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا تو امریکی فوج اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کے پاس دنیا کی عظیم ترین اور سب سے زیادہ اہل فوج ہے جو قوم کا دفاع کرتی رہے گی۔