رسائی کے لنکس

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ: ایران کے برسرِ اقتدار طبقے کی پراسرار خاموشی


بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے گزشتہ برس فروری 2023 میں سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تاکہ قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جا سکے۔‘‘
بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے گزشتہ برس فروری 2023 میں سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تاکہ قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جا سکے۔‘‘
  • ٹرمپ پر حملے کی کوشش کے کئی دن بعد بھی ایران کے حکمرانوں نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
  • ایران کے سرکاری میڈیا کے ذریعے یہ سازشی نظریات پھیلائے جا رہے ہیں کہ کیا یہ قاتلانہ حملہ حقیقی تھا بھی یا یہ خود کرائی گئی فائرنگ ہے۔
  • عراق میں پاسدارانِ انقلاب کے جنرل کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد ایران نے دھمکی دی تھی کہ وہ قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لے گا۔
  • ایران کے ایک مبینہ منصوبے کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد سیکریٹ سروس نے سابق صدر ٹرمپ کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا تھا۔
  • ایران کے یو این مشن کے حکام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایران سے خطرات سے متعلق تمام الزامات غیر مصدقہ اور بد نیتی پر مبنی ہیں۔

واشنگٹن _ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے کئی روز بعد بھی ایران کے مذہبی حکمرانوں نے اس واقعے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

ایران کا حکمران طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ کو طویل عرصے سے اپنے حریف کے طور پر دیکھتا رہا ہے جب کہ صدارت ختم ہونے کے بعد ٹرمپ کو ایران سے انتقام کی دھمکیوں کا بھی سامنا رہا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا پر اس واقعے کی اب تک صرف ایک ہی خبر سامنے آئی ہے جو ہفتے کو ریاست پینسلوینیا کے شہر بٹلر میں ایک انتخابی ریلی میں ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والی فائرنگ سے متعلق تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سازشی نظریہ بھی دیا گیا کہ یہ قاتلانہ حملہ حقیقی تھا بھی یا یہ خود کرائی گئی فائرنگ ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں جنوری 2020 میں عراق کے شہر بغداد میں ایک فضائی حملہ کیا گیا تھا جس میں ایران کی اعلیٰ ترین فورس پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی دیگر ساتھیوں کے ہمراہ موت ہوئی تھی۔ اس حملے کے بعد ایران نے دھمکی دی تھی کہ وہ قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں قاسم سلیمانی پر حملے کو ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے خلاف اور اس کی خطے میں دیگر سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھانے کا حربہ قرار دیا تھا۔

اب تک سب سے واضح دھمکی جو ایران سے ٹرمپ کو دی گئی ہے وہ پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ کی جانب سامنے آئی ہے۔

بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے فروری 2023 میں سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تاکہ قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جا سکے۔‘‘

 ٹرمپ انتخابی ریلی میں زخمی ہو گئے
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:53 0:00

ڈونلڈ ٹرمپ پر چار روز قبل ہونے والے قاتلانہ حملے میں ایران کے ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملے کا ذمہ دار صرف ایک 20 سالہ نوجوان تھامس میتھیو کروکس کو قرار دیا ہے۔ تھامس میتھیو کروکس کو سیکریٹ سروس کے اہلکاروں نے موقع پر ہی ہلاک کر دیا تھا۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کے ایک مبینہ منصوبے کی انٹیلی جینس اداروں کو ایک نامعلوم ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد سیکریٹ سروس نے حالیہ ہفتوں میں سابق صدر کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا ہے۔

امریکہ کے بڑے اخبارات ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’نیو یارک ٹائمز‘ نے بھی امریکی حکام سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران سے خطرات کی رپورٹس شائع کی ہیں جن میں حکام کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے لیے ایران کے نیو یارک میں موجود مشن کے حکام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تمام الزامات غیر مصدقہ اور بد نیتی پر مبنی ہیں۔

ایران کے مشن نے ایک بیان میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مجرم ہیں جن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور انہیں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے احکامات جاری کرنے کے جرم میں عدالت سے سزا ہونی چاہیے۔

امریکہ کی سیکریٹ سروس کے کمیونی کیشن کے سربراہ انتھونی گگلیلمی کا ’سی این این‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سیکریٹ سروس اور دیگر ایجنسیوں کو متواتر ممکنہ خطرات کی نئی معلومات موصول ہوتی رہتی ہیں اور اسی حساب سے حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

ایران کے ذرائع ابلاغ میں مختلف سازشی نظریات کو بھی سامنے لایا جا رہا ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کے زیرِ اثر کام کرنے والی سرکاری نیوز ایجنسی ’تسنیم نیوز‘ نے بھی اسی طرح کی ایک خبر حملے کے بعد اتوار کو شائع کی۔

اس خبر کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زخمی ہونے کے بعد کی متعدد تصاویر کو جوڑ کر لگایا گیا ہے اور اس پر فارسی زبان میں تین الفاظ کی شہہ سرخی ’خون یا سور‘ لگائی گئی ہے۔

ایران کے دیگر سرکاری اداروں نے بھی صدر ٹرمپ کے زخمی ہونے اور اس کے بعد اٹھنے کی تصاویر لگائی ہیں۔

اس حوالے سے کینیڈا کی واٹرلو یونیورسٹی میں مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ پڑھانے والے ایرانی نژاد کینیڈین پروفیسر شہرام خولدی کہتے ہیں کہ ایران کے برسرِ اقتدار طبقے کے پاسدارانِ انقلاب اور دیگر فورسز میں موجود حامی حکومت کو قائم کرنے کے لیے مرنے اور مار دینے کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شدت پسند نظریات کا حامی طبقہ امریکی عوام میں تقسیم اور کمزوریوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہیں امریکہ کے جمہوری نظام میں ٹوٹ پھوٹ نظر آتی ہے۔

ان کے بقول ایران کا برسرِ اقتدار طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اسی پروپیگنڈے کی ترویج میں مصروف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن نہیں ہونا چاہیے کہ آئندہ ہفتوں میں ایران کا برسرِ اقتدار طبقہ اسی طرح کے دیگر بد شگونی والے منظرناموں پر توجہ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں حکام کو خوف ہے کہ ٹرمپ دوبارہ برسرِ اقتدار آ سکتے ہیں۔ ایرانی حکام کی جانب سے ایک خاموشی ہے جو اس طرح کے مواقع پر فوری بیانات داغ دیتے ہیں۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو اس کے اتحادیوں چین اور روس نے یقین دہانی کرائی ہو کہ اگر ٹرمپ ایک بار پھر اقتدار میں آتے ہیں تو کسی بھی مذاکراتی عمل میں وہ تہران کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔

XS
SM
MD
LG