پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں 10 مشتبہ شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
انٹیلی جنس عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح کیے گئے اس ڈرون حملے کا ہدف شمالی وزیرستان سے 15 کلومیڑ کے فاصلے پر سپلگاہ نامی علاقے میں عسکریت پسندوں کے زیر استعمال ایک مکان تھا۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں غیر ملکی شدت پسند بھی شامل تھے لیکن افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں میڈیا کی انتہائی محدود رسائی کے باعث غیر جانبدار ذرائع سے ان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں مہمند ایجنسی کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد مبینہ امریکی حملوں میں طویل تعطل دیکھنے میں آیا تھا۔ لیکن یہ عارضی تعطل رواں سال جنوری کے اوائل میں اس وقت ختم ہو گیا جب شمالی وزیرستان میں ہی شدت پسندوں کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔
جنوری 2012ء کے اواخر میں امریکی صدرباراک اوباما نے پہلی بار باضابطہ طور پر پاکستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کرنے کی تصدیق کرتے ہوئےان کا بھرپورانداز میں دفاع کیا تھا۔ صدر اوباما نے کہا تھا کہ ڈرون حملوں کا ہدف القاعدہ اوراس کے حامی ہیں۔
پاکستان ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے کر ان کی مذمت کرتا ہے کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں میں شہری ہلاکتوں سے حکومت کی انسداد دہشت گردی کی مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی اورجنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے یعنی ڈرون سے میزائل حملوں کا سلسلہ 2004ء میں شروع کیا گیا تھا۔