منگلہ اور تنگی ڈیم: 22کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی امریکی امداد

فائل

ایشین ڈولپمنٹ بینک اور امریکی انتظامیہ نے پاکستان میں دیامیر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے لیے سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے، اور اس سلسلے میں، اے ڈی بی بہت جلد ایک جائزہ مشن پاکستان بھیجے گا: پاکستانی وزیر خزانہ

وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ عالمی بینک کے تحت کام کرنے والا ادارہ، انٹرنیشل فائنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) پاکستان کے مختلف نجی شعبوں میں، جن میں توانائی اور مالیات کے شعبے بھی شامل ہیں، ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

پاکستانی وفد کی طرف سےعالمی بینک اوربین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت، اور درجنوں اہم دو طرفہ بات چیت کی نشستوں اور ریٹنگ ایجنسیز سےملاقاتوں کے بعد دورے کےاختتام پر پیر کو صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اُنھوں نےکہا کہ عالمی بینک نےپاکستان کے لیے امدادی رقوم ایک ارب 60لاکھ ڈالر سے بڑھا کر ایک ارب 80ہزار ڈالر کردی ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ امریکہ نےمنگلہ ڈیم کی بحالی اور کرم تنگی ڈیم پراجیکٹ کے لیے 22کروڑ 30لاکھ ڈالر دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، اور اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ نے کانگریس کو منظوری کے لیے رجوع کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یو ایس ایڈ کے عہدےداروں، آئی ایم ایف میں پاکستان کےمشن اور اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایشین ڈولپمنٹ بینک اور امریکی انتظامیہ نے پاکستان میں دیامیر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے لیے سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے، اور اس سلسلے میں، اے ڈی بی بہت جلد ایک 'جائزہ وفد' پاکستان بھیجے گا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ برطانوی ہم منصب سےملاقات میں برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ چار برسوں کے دوران دو ارب 25لاکھ ڈالر پاکستان کو فراہم کیےجائیں گے، اور یہ امداد بنیادی طورپر تعلیم کے شعبے کے لیے مختص ہوگی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں کےنتیجے میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان کی معیشت میں 'بہتری کے آثار و علامات نمایاں اور معاشی استحکام اور ترقی یقینی ہے'۔

اس سلسلے میں اُنھوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں اضافے، بہتر شرح نموکے حصول، برآمدات میں اضافے اور حکومتی اخراجات اور قرضہ جات میں کمی لانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اِنہیں پاکستانی معیشت میں بہتری کی علامات قرار دیا۔ اُنھوں نےبرآمدات میں چھ فی صد اضافے اور آمدن میں 25فی صد اضافے کا ذکر کیا۔

بیرون ملک ترسیلات زر کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ سال رواں کے دوران ان کی مالیت 13ارب 50 لاکھ ڈالر ہوگی، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 21فی صد کا اضافہ ہے۔ پچھلے برس، یہ رقوم 11 ارب 20 لاکھ ڈالر کی سطح پر تھیں۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ پیر کے روز عالمی بینک کا 'خصوصی فورم' منعقد ہوا جس میں پاکستان کے بارے میں ایک تفصیلی 'پینل ڈسکشن' ہوا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اجلاسوں کے علاوہ اُنھوں نے چین، سعودی عرب، افغانستان، ایران کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں، اور امریکی انتظامیہ کے عہدے داروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کو 70کروڑ ڈالرواپس کرچکا ہے، جب کہ اسی سال جون تک مزید 46کروڑ ڈالر کے قرضے کی رقم واپس کر دی جائے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ قومی فائنانس ایوارڈ کے ضمن میں سماجی ترقی کے شعبےکے لیے پاکستان بھر میں اضافی 600سے 700ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں، جو بنیادی صحت، تعلیم، پینے کے پانی، ٹیکے، ماں اور بچے کی صحت پر خرچ کیے جارہے ہیں، جس بات کے معاشرے کی ترقی پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے بجٹ کو دوگنا کیا گیا ہے جب کہ گلگت بلتستان میں نئے انتظامی ڈھانچے کے لیےاضافی رقوم مختص کی گئی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، ادارے مضبوط ہورہے ہیں، اوراُن کے بقول، ایکvibrant societyتشکیل پارہی ہے۔

کفایت شعاری کےحصول کے لیے حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ حکومت کے اخراجات میں 10فی صد کی کمی کی گئی ہے۔

تیل کی قیمتوں کے سلسلے میں، اُنھوں نے کہا کہ یورپی معاشی زون کے حالات اور بین الاقوامی معیشت کے سکڑنے کے رجحان جاری رہنے کی صورت میں، اس کے اثرات پاکستان پر پڑنا لازم ہیں، جس سلسلے میں محتاط اور ذمہ دارانہ معاشی انتظام کی ضرورت رہے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں کا دارومدارعالمی نرخوں پر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنا حکومت کی پہلی ترجیح ہے، جب کہ قانون کی حکمرانی، افراط زر کو مزید کم کرنے اور روزگار کے ذرائع میں اضافے پر زور دیا جارہا ہے۔