سوشل میڈیا سے پیسہ کمانا یا ویب پلیٹ فارمز چلانا آسان ہے اور نہ ہی مشکل۔ اس کے لیے مستقل مزاجی پہلی شرط ہے کیونکہ صرف اپنے کام پر توجہ دینا کافی نہیں بلکہ ڈیجیٹل کی دنیا میں اپنے مدِ مقابل کی کارکردگی پر بھی نظر رکھنا کامیابی کی کنجی تصور کی جاتی ہے۔
ایک ہی ترکیب سے بنے دال چاول، گوشت اور پکوڑے کھا کر تنگ آجانے والے اسد میمن اور اُن کی اہلیہ صائمہ نے 2009 میں پہلی بار سوچا کہ کھانے بنانے کے جتنے شو ٹی وی پر آتے ہیں، سب کے سب بہت لمبے ہیں اور کھانے بنانے کی تراکیب سیکھنے کے لیے کسی کے پاس اتنا وقت کہاں؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے 'فوڈ فیوژن' نامی یوٹیوب چینل کے مالک اسد میمن نے اپنے آن لائن پورٹل کی ابتدا سے کامیابی تک کے سفر کی کہانی سنائی۔
اُن کا کہنا ہے کہ 2015 میں اپنی مستقل نوکری چھوڑ کر انہوں نے اہلیہ کی مدد سے مکمل طور پر کوکنگ چینل چلانے کا فیصلہ کیا جو ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن بعد میں یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔
یہ اُن کے فیصلے، مستقبل مزاجی اور محنت کا ہی ثمر ہے کہ اس وقت ان کے یوٹیوب چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد 18 لاکھ سے زائد ہے۔
آئن لائن پورٹل کیسے کامیاب ہو سکتا ہے اور اس سے کتنے پیسے کمائے جاسکتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب متفرق عوامل پر منحصر ہے لیکن ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی اپنی کہانی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موبائل کی رسائی 16 کروڑ افراد تک ہے جب کہ تھری جی اور فور جی استمعال کرنے والوں کی تعداد سات کروڑ تیس لاکھ کے قریب ہے اور براڈ بینڈ صارفین کی کُل تعداد سات کروڑ پچاس لاکھ ہے۔
لیکن اس اعداد و شمار کا استعمال کیسے کیا جائے یہ جاننا آسان نہیں۔ اسد میمن کہتے ہیں کہ لوگوں میں ایک تاثر عام ہے کہ شاید آن لائن مواد سے پیسہ بنانا بہت مشکل ہے لیکن ایسا نہیں ہے، اس کے لیے چند اہم تکنیکی نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
صحافتی اور سوشل پلیٹ فارم 'سجاگ' کے انچارج اصغر زیدی اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "چونکہ فیس بک پاکستان سے آنے والے مواد پر پیسے ادا نہیں کرتا اس لیے لے دے کر یو ٹیوب کا پلیٹ فارم رہ جاتا ہے۔ اور اس پر ملنے والی رقم کسی کے لیے بھی کافی نہیں کیوں کہ یوٹیوب ایک ہزار 'ویوز' پر صرف 0.45 ڈالر دیتا ہے۔"
اصغر زیدی کے بقول، آئن لائن زیادہ مقبول ہونے والی ویڈیوز انٹرٹینمنٹ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔
یوٹیوب پر انٹرٹینمنٹ ویڈیوز پسند کیے جانے سے متعلق 'سوشل جنکشن' نامی سوشل مارکیٹنگ کے سربراہ شیخ نضال کا کہنا ہے کہ انٹرٹینمنٹ کی کیٹیگری شاید زیادہ جلدی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن یہ کامیابی کا صرف ایک حصہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کے بقول، سوشل میڈیا سے رقم کمانے کے لیے کئی ماڈلز ہیں جن کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، ایسا ماڈل جس میں دوسرے معروف برانڈز کی ویب پلیٹ فارم پر تشہیر ہو، ویب ٹریفک سے بھی پیسہ کمایا جا سکتا ہے اور تیسرے ماڈل میں آپ انتخاب کرتے ہیں کہ کس قسم کا اشتہار آپ کے پلیٹ فارم پر نظر آئے گا۔
'فوڈ فیوژن' بھی سوشل میڈیا پر پیسے کمانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس بزنس ماڈل کے مالک اسد میمن کا کہنا ہے کہ کا یوٹیوب چینل 'برانڈ اینڈورسمنٹ' پر مشتمل ہے۔
ان کے بقول، وہ کئی برسوں سے تک سوشل مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ رہ چکے ہیں اس لیے وہ ان مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔
اسد میمن کے مطابق ابتدا میں جب انہوں نے کوکنگ چینل بنایا تو کچھ مشہور برانڈذ نے ان سے رابطہ کیا جس کے بعد 'فوڈ فیوژن' اپنے کھانا پکانے کی ویڈیوز میں اُن کی مصنوعات کو فیچر کرنے لگا۔
اُن کا کہنا ہے کہ آج اتنے سال گزرنے پر وہ نا صرف کامیاب یو ٹیوب چینل کے مالک ہیں بلکہ لوگوں کو بھی چینل چلانے کے گُر بتاتے ہیں۔
ان کی موجودہ ٹیم بارہ افراد پر مشتمل ہے اور ان کا باقاعدہ ایک اسٹوڈیو بھی ہے۔ اس پر اصغر زیدی کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس پلیٹ فارم سے معقول پیسہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
وہ جلد اپنے بزنس ماڈل میں کچھ تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کہ شیخ نضال کہتے ہیں کہ اس تمام کام کو کرنے کے لیے چند اہم باتیں ملحوظ رکھنا ہوں گی۔ نہ صرف یہ کہ آپ کا اب لوڈ کردہ مواد اچھا ہو اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کرے۔
کتنے وقت میں، کتنی رقم بنائی جا سکتی ہے؟
شیخ نضال کہتے ہیں کہ یوٹیوب چینل کے لیے مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ واچ اور ٹرینڈز پر نظر رکھتے ہوئے اپنے پلیٹ فارم کو اپ ڈیٹ کرتا رہے، یہ بہت اہم ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کامیابی ایک صبر آزما کام ہے، ایک سال تک تو آپ یہ سوچیں بھی نہ کہ آپ پیسہ کمائیں گے کیوں کہ پہلا سال تو تکنیک سیکھنے پر صرف ہو جاتا ہے۔
اگر 40 سے 50 ہزار ماہانہ کمانا ہوں تو کیا کرنا ہو گا؟
اس سوال پر اسد میمن بتاتے ہیں کہ اگر آپ ایک سال میں 60 ہزار سے زائد صارف سبسکرائب کرا پاتے ہیں، آپ کے لائکس کی شرح زیادہ ہے اور ویب ٹریفک معقول ہے تو اتنی رقم بانان کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ویب پلیٹ فارمز چلانا اور ان سے پیسے کمانا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی نا ممکن بلکہ بقول ماہرین اور یو ٹیوبرز، اس کے لیے مستقل مزاجی پہلی شرط ہے کیونکہ صرف اپنے کام پر توجہ دینا کافی نہیں بلکہ ڈیجیٹل کی دنیا میں اپنے مددِ مقابل کی کارکردگی پر نظر رکھنا کامیابی کی کنجی ثابت ہو سکتا ہے۔