برطانوی شہزادے کی شادی عالمی میڈیا کی توجہ کامرکز

برطانوی شہزادے کی شادی عالمی میڈیا کی توجہ کامرکز

برطانیہ میں جوں جوں شہزادے ولیم اور کیٹ مڈلٹن کی شادی قریب آرہی ہے ، یہ جوڑا میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ساتھ ہی جدید دور میں شہنشایت کے کردار کے حوالے سے بھی میڈیا دلچسپی لیتا دکھائی دے رہا ہے۔

شہزادہ ولیم کی اپنی پرانی دوست کیٹ سے شادی کی خبر کے باعث لوگوں میں اچانک برطانوی شاہی خاندان کے حوالے سے اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ لوگوں کو تجسس ہے کہ دلہن کیا لباس زیب ِ تن کرے گی۔ توقع ہے کہ موسم ِ بہار میں ہونے والی ا س شادی پر دس لاکھ کے قریب سیاح برطانیہ کا رخ کریں گے۔

ملکہ ِ برطانیہ الزبتھ دوئم کی سرپرستی میں ہونے والی یہ شادی سیاحوں کے لیے کشش کا سبب ہے۔ جس سے برطانوی معیشت کو80 کروڑ کا فائدہ ہونے کی توقع ہے۔

پٹریشیا یاٹس، برطانیہ کے سیاحتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اس میں اس لیے زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ تاریخ و تہذیب اور جدیددور کا ایک امتزاج ہے۔

مگر برطانوی شاہی خاندان کے ناقدین کے مطابق لوگ ملکہ ِ برطانیہ کی لندن میں رہائش بکنگھم پیلس ، ونڈسر کیسل اور دیگر شاہی مقامات کو دیکھنے کے لیے شاہی خاندان کے بغیر بھی آئیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ برطانوی شاہی نظام ختم کیا جائے۔ برطانوی حکومت کے معاملات میں اگرچہ شاہی خاندان کا کردار محض نمائشی ہے، لیکن ان کے ناقدین کو اس تاثر پر بھی اعتراض ہے کہ حکومت بادشاہت کے تابع ہے۔

گراہم سمتھ برطانوی شاہی نظام کے خلاف گروپ ری پبلک کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ برطانوی شہنشایت ہمارے آئین اور ہمارے سیاسی نظام کا حصہ ہے۔ ملکہ ہماری ریاست کی سربراہ ہیں جو کہ مکمل طور پر غلط ہے۔

جبکہ اس حوالے سے بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہزادہ چارلس کو شہزادے ولیم کے حق میں دستبردار ہو جانا چاہیے جنہیں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
ملکہ الزبتھ پندرہ دیگر ممالک کی سربراہ بھی ہیں جبکہ دنیا بھر میں محض برطانوی شاہی خاندان ہی شہنشایت کو برقرار نہیں رکھے ہوئے ہے۔ شاہی نظام دنیا کے اور بھی بہت سے ملکوں میں نافذ ہے۔

سعودی عرب میں شاہ عبداللہ ان چند شاہی خاندانوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں جو سعودی عرب کے حقیقی معنوں میں حکمران ہیں۔ زولو بادشاہ بھی ابھی تک ہیں جبکہ ان کی سلطنت اب جنوبی افریقہ کا حصہ ہے۔

دنیا بھر میں شاہی خاندانوں کے مختلف رسوم و رواج اور مختلف کردار ہیں۔ یورپ میں شاہی خاندانوں کے پاس کم طاقت ہے اورمشرق ِ وسطیٰ میں خودمختار شہنشایت کا رواج ہے۔ جبکہ مشرق ِ بعید میں ہمیں جاپان اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں ان دونوں نظاموں کا سنگم دکھائی دیتا ہے جہاں شہنشایت کو تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

تھائی لینڈ کے شہنشاہ بومیسول ادولیاد دنیا کے سب سے طویل حکمرانی کرنے والے بادشاہ ہیں۔ وہ 1946 سے تخت پر ہیں۔ ان کی بادشاہت کی ساٹھویں سالگرہ میں دنیا بھر سے شاہی افراد نے شرکت کی۔

انہیں تھائی لینڈ میں بادشاہت سے جمہوریت کو استحکام دینے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔انہیں ایک ایسے ملک میں جسے سیاسی بحران لاحق تھا ایک قابل ِ احترام ہستی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

جبکہ برطانیہ میں لاکھوں لوگ شاہی خاندان میں آنے والی نئی رکن اور نئی ملکہ کے انتظار میں ہیں۔