ایران کے ساتھ امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کا تازہ ترین دور جمعے کو دس روز کے لئے ملتوی ہو گیا ہے۔ اور یورپی طاقتوں اور مذاکرات کے ایک رابطہ کار نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی بحالی کے لئے کسی اتفاقِ رائے کے لئے اب مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں کی مہلت ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے 2015 کے معاہدے کی بحالی کے یہ مذاکرات یورپی ممالک کے تعاون سے ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد امریکہ اور ایران کو اس معاہدے میں واپس لانا ہے جس سے 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
رائٹرز کے مطابق، جون میں ایران کے سخت مؤقف کے حامی، صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد، دو ہفتے قبل دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس سے پہلے کے مذاکرات کے چھ ادوار میں ایک معاہدے کا جو خاکہ سامنے آیا تھا اس میں ایرانی نمائندوں نے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جس سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہوا اور مغربی نمائندوں کو کھل کر کہنا پڑا کہ ایران کی تیزی سے جاری ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے کا وقت نکلتا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کے نمائندے ایریکے مورا نے مذاکرات کے ساتویں دور کے اختتام پر ایک میٹنگ کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ،"کسی معاہدے کے لئے ہمارے پاس مہینے نہیں بلکہ صرف ہفتے بچے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اسی سال بات چیت دوبارہ شروع ہوگی، جبکہ بعض عہدیداروں نے کہا ہے کہ مذاکرات 27 دسمبر کو دوبارہ شروع ہوں گے۔
ای تھری کہلانے والے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایران جلد مذاکرات میں واپس آئے گا، تاکہ ان میں تیزی لائی جا سکے۔
ادھر امریکہ سمجھتا ہے کہ انتہائی افزودہ یورینیم سے ایٹمی ہتھیار بنانے سے گریز کے لئے ایران کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے اور یہ خطرے کا باعث ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے یہ بات جمعے کو نامہ نگاروں کو بتائی۔
رائٹرز کے مطابق عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے یہ تعین نہیں کیا کہ ایران کے اس سرگرمی سے الگ ہونے کے لئے کتنا وقت رہ گیا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ انتہائی کم وقت ہے اور اندازہ ہے کہ بات صرف مہینوں کی ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ امریکی محکمہ خزانہ کی غیر ملکی اثاثوں پر کنٹرول کی ڈائریکٹر، آندریہ جیکی اس ہفتے کے شروع میں متحدہ عرب امارات میں تھیں جہاں انہوں نے نجی کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ ایران پر عائد تعزیروں کی خلاف ورزی نہ کریں ورنہ اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
(اس خبر میں معلومات رائٹرز سے لی گئیں)