موسمیاتی تبدیلی کا عالمی معاہدہ، وائٹ ہاؤس اجلاس مؤخر

فائل

مشیروں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں فیصلہ ہونے والا ہے آیا سنہ 2015 کا معاہدہ منسوخ کیا جائے، جس کا مقصد عالمی تپش کو کنٹرول کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی لانا تھا، جس میں امریکہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ایک عشرے کے اندر آلودگی میں کمی لائی جائے گی

وائٹ ہاؤس نے منگل کو دوسری بار پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے بین الاقوامی معاہدے کے سلسلے میں بلایا گیا اجلاس مؤخر کر دیا ہے، جِس کا مقصد اس بات پر غور کرنا تھا آیا امریکہ معاہدے سے علیحدہ ہو جائے، جس معاہدے کے سابق صدر براک اوباما حامی ہوا کرتے تھے۔

صدارتی امیدوار کے طور پر اپنی طویل انتخابی مہم کے دوران، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ عہدہ سنبھالنے پر وہ اس معاہدے کو منسوخ کر دیں گے، جس پر 196 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ لیکن، عہدہ سنبھالنے کے بعد ابھی تک اُنھوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔

مشیروں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں فیصلہ ہونے والا ہے آیا سنہ 2015 کا معاہدہ منسوخ کیا جائے، جس کا مقصد عالمی تپش کو کنٹرول کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی لانا تھا، جس میں امریکہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ایک عشرے کے اندر آلودگی میں کمی لائی جائے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ اس بارے میں مئی کے آخر میں سسلی میں ’جی سیون‘ کے سربراہ اجلاس سے پہلے فیصلہ متوقع ہے، جس میں دنیا کی سرکردہ معیشت والے ملک شریک ہوں گے، جس میں صدر ٹرمپ شرکت کریں گے۔

چین کے بعد، امریکہ دنیا میں آلودگی پھیلانے کا ذمہ دار دوسرا بڑا ملک ہے، اور پیرس معاہدے سے نکلنے کی صورت میں اس کے دنیا کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ پیرس معاہدے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں اوباما اور چین کے صدر شی جن پنگ نے کردار ادا کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی پر اجلاس کی متبادل تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، جب کہ اس معاملے پر اپنی ہی انتظامیہ میں ٹرمپ کو متنازع رائے کا سامنا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، جو ’ایکسون موبیل‘ کے تیل کے بڑے کاروباری شخص ہیں، اس معاہدے کے حامی ہیں، جب کہ ملک کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے منتظم، اسکوٹ پروت کا کہنا ہے کہ ’’یہ امریکہ کے لیے ایک خراب معاہدہ ہے‘‘ جس کی وجہ سے چند امریکی کارکنان کا روزگار متاثر ہوگا۔

ایک وقت ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ موسیماتی تبدیلی ایک فریب ہے جسے چین کی شہ پر سامنے لایا گیا ہے۔