امریکی صدر براک اوباما جمعے کے روز سالانہ اختتام ِسال اخباری کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں، جس کے بعد وہ موسم سرما کی تعطیلات گزارنے کے لیے ہَوائی روانہ ہوجائیں گے۔ اور اُن کے پاس نمایاں نتائج سے متعلق کہنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں۔
متوقع طور پر صدر وسیع تر امور سے متعلق سوالات کے جواب دیں گے، جو حالیہ دِنوں اخبارات میں جلی حروف کی زینت بن چکے ہیں۔
اِن میں، کیوبا کے بارے میں امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی، سونی پکچرز پر تباہ کُن سائبر حملہ۔۔۔ جس کی کڑیاں، وفاقی تفتیش کاروں کے مطابق، شمالی کوریا سے ملتی ہیں؛ اور تارکین وطن سے متعلق مسٹر اوباما کا متنازع انتظامی حکم نامہ۔
دیگر معاملات جِن کے بارے میں توقع ہے کہ جمعے کی اخباری کانفرنس میں اُن کا ذکر اذکار شدومد سے ہوسکتا ہے، وہ ہیں: دولت اسلامیہ کے شدت پسند، سینیٹ کی طرف سے افشاع کردہ ’سی آئی آے‘ کا متنازع تفتیشی طریقہٴکار اور اس سال کے آخر تک افغانستان میں امریکی لڑاکا مشن کا خاتمہ۔
نامہ نگار کانگریس میں ریپبلیکنز کے ساتھ صدر کے جاری کشیدہ تعلقات کے بارے میں سوال کر سکتے ہیں۔ جنوری میں، جب نئے کانگریس کا اجلاس منعقد ہوگا، ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلیکنز کو واضح اکثریت حاصل ہوجائے گی۔
نومبر میں کانگریس کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کے بعد سے یہ صدر اوباما کی وائٹ ہاؤس میں کی جانے والی پہلی اخباری کانفرنس ہوگی۔
داخلی محاذ پر، ممکنہ طور پر صدر معیشت، صحت عامہ کی دیکھ بھال اور افریقی نژاد امریکیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے معاملے پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے متعلق بات ہو سکتی ہے۔
اب جب کہ دوسری میعادِ صدارت کو ختم ہونے میں محض دو برس باقی رہ گئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ مسٹر اوباما سے پوچھا جائے کہ سنہ 2016کے صدارتی انتخابات سے متعلق اپنا نکتہٴنظر بیان کریں۔