|
|
پاکستان میں نئی وفاقی کابینہ کی تشکیل کے پہلے مرحلے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے محمد اورنگزیب کو بطور وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات شامل کیا ہے۔
نئے وفاقی وزیر خزانہ 59 سالہ محمد اورنگزیب پیشے کے لحاظ سے بینکر ہیں اور وفاقی وزیر بننے سے قبل وہ چھ سال تک حبیب بینک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر رہے ہیں۔
بینکنگ کے شعبے میں 30 سالہ وسیع تجربہ رکھنے والے محمد اورنگزیب کی بطور وزیرِ خزانہ تعیناتی کو کئی معاشی اور سیاسی تجزیہ کار انتہائی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔
ایسے میں جب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان سے اسٹینڈ بائی پروگرام کے آخری جائزے کے لیے پاکستان پہنچنے والا ہے۔ معاشی بحرانوں میں گرے ہوئے ملک کو اس مشکل صورتِ حال سے نکالنے کے لیے اس تعیناتی پر کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ پالیسی کے میدان میں محمد اورنگزیب کی آزمائش نہیں ہو پائی ہے اور اس کے اثرات ہم نے منگل کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں پڑنے والی مندی میں بھی دیکھے ہیں۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر 953 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھی گئی یعنی فی الوقت نئے وزیرِ خزانہ کی تعیناتی سرمایہ کاروں کا فوری اعتماد حاصل نہیں کر سکی۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ یہ توقع ظاہر کر رہے تھے کہ نگراں دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ رہنے والی ڈاکٹر شمشاد اختر ہی موجودہ حکومت میں بھی برقرار رہیں گی۔ لیکن ڈاکٹر اقدس کے بقول محمد اورنگزیب کی بطور وزیر خزانہ تقرری بھی ایک اچھا فیصلہ ہے۔
ان کے خیال میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت میں اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کے درمیان کچھ مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ اب چوں کہ پاکستان کا اسٹینڈ بائی معاہدہ مارچ میں ختم ہو رہا ہے تو پاکستان کو ایک اور پروگرام کے لیے بھی مذاکرات کرنے ہیں جو چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے حصول کے لیے ہو گا۔
ڈاکٹر اقدس افضل کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو وزیرِ خزانہ مقرر کرنا جو خود بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں ایک بہتر فیصلہ تو ہے لیکن یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو گا کہ ان کی پرفارمنس کیسی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اسحاق ڈار کے مقابلے میں یہ اچھے وزیرِ خزانہ ثابت ہوں گے۔
'دیکھنا ہو گا کہ نئے وزیرِ خزانہ اصلاحات کیسے متعارف کراتے ہیں'
سینئر معیشت دان اور پبلک پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کیا جا سکے۔
اسی طرح پاکستان کا توانائی کا شعبہ، نجکاری اور دیگر شعبوں میں بھی بہت سی فوری اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے میں معیشت کو دوبارہ سے ٹریک پر لانا صرف ایک ہی شعبے کے ماہر کے بس کی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل کہتے ہیں کہ اس وزارت کو سنبھالنے کے لیے ایک ایسا شخص درکار ہے جس کی مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی سمجھ بوجھ بہت ٹھوس ہو اور بینکرز کا فنانس کے شعبے کا ایک اچھا پس منظر ہوتا ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف کی نئی حکومت سے بات چیت پر آمادگی: 'عمران خان کے خط سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا''بڑا چیلنج آئی ایم ایف پروگرام ہے'
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا حصول ہے اور اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنا ایسا پروگرام ڈیزائن کر کے پیش کر سکے کہ اس کی بنیاد پر فنڈ پیسوں کا اجرا کر سکے۔ اس سارے عمل میں وزیرِ خزانہ کا کلیدی کردار ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے نیا آئی ایم ایف پروگرام لازم و ملزوم ہے کیوں کہ پاکستان کو اگلے دو مالی سالوں میں 25، 25 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ اب چیلنج یہ ہے کہ نئے وزیرِ خزانہ کی ٹیم ایسا پروگرام ترتیب دے سکتی ہے جس سے معیشت کو مسابقتی بنایا جا سکے۔
مہنگائی سے نمٹنے کا چیلنج
ڈاکٹر اقدس کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے آئی ایم ایف معاہدہ اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا بڑے چیلنجز ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ پچھلے دو سال سے افراطِ زر کی شرح 24 فی صد سے اوپر رہی ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی عوام کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
'پرانی پالیسیاں برقرار رکھ کر مختف نتائج کی توقع رکھنا بے کار ہے'
سینئر معیشت دان اور نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ وزیرِ خزانہ کی صلاحیتوں پر کوئی شک و شبے کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس وقت پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے محض شخصیات کی تبدیلی نہیں بلکہ پالیسیوں کی تبدیلیوں کی زیادہ ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہی معاشی پالیسیاں برقرار رکھنی ہیں جو برسوں بلکہ دہائیوں سے چلی آ رہی ہیں تو نتائج کیسے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مختلف نتائج کے لیے معاشی پالیسیوں میں تبدیلی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی توقع رکھنا غلط ہو گا۔