پاکستان میں سیاسی بے یقینی: 'سیاسی جماعتیں اورجمہوریت بند گلی میں جا رہی ہیں'

فائل فوٹو

پاکستان کے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے 34 اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد پاکستانی سیاست نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف داؤ پیچ آزما رہی ہیں۔ لیکن اس سے ان جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی بند گلی میں جا رہی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں فوری عام انتخابات چاہتی ہے تو دوسری جانب حکومت وقت پر عام انتخابات کرانے پر بضد ہے۔ ایسے میں کوئی فریق بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی چالیں چلانے کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ گردش ہے کہ تمام تر پتے آزمانے کے بعد اب حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس کیا آپشنز باقی بچے ہیں؟ کیا اب ملک عام انتخابات کی طرف جائے گا یا اب بھی کوئی سیاسی ایڈونچر باقی ہے؟

پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس وقت پاکستان میں جمہوریت بند گلی میں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی اور معاشی اعتبار سے حالات اِسی طرح رہے یا مزید خراب ہوئے تو غیر جمہوری قوتوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا کیوں کہ سیاسی جماعتوں سے چیزیں نہیں سنبھل رہی اور حالات خراب ہو رہے ہیں۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریکِ انصاف دونوں ہی مشکل میں ہیں۔ حکمراں اتحاد کو ملکی معیشت کو ٹریک پر لانے کا چیلنج درپیش ہے تو عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف کیسز اُن کی مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر نظر رکھنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ آئینی اعتبار سے تو پاکستان کی ڈگر درست ہے، لیکن سیاسی بے یقینی کی فضا کی وجہ سے کچھ چیزیں مبہم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سمیت دیگر دو صوبوں کی اسمبلیاں برقرار رہنے کی صورتِ حال پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے۔

اُن کے بقول انتخابی قوانین کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات ایک ہی روز ہوتے ہیں، لیکن دو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صورتِ حال پیچیدہ ہو گئی ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو بہرحال مل بیٹھنا ہو گا۔

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کے اس ماحول میں وفاقی حکومت کے لیے معاشی اہداف حاصل کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ سال انتخابات کا سال ہے، لیکن اگر ملکی معیشت بہتر نہ ہوئی اور مہنگائی ایسے ہی برقرار ہی تو حکمراں اتحاد کے لیے یہ الیکشن مشکل ہو گا۔


احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس وقت عمران خان کے ساتھ عوامی حمایت ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر سیاسی رہنما سنجیدہ فیصلے نہیں کرتے تو پھر اُن کی مقبولیت کم بھی ہو جاتی ہے۔

ؒخیال رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے منگل کو تحریکِ انصاف کے 34 اراکین کے استعفے منظور کر لیے تھے۔

اسپیکر کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا، جب تحریکِ انصاف نے یہ عندیہ دیا تھا کہ صدرِ پاکستان وزیرِ اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے سے قبل نفع و نقصان کا اندازہ لگایا ہو گا۔

اُن کے نزدیک عمران خان کی شاید یہ سوچ تھی کہ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے حکمراں اتحاد پر دباؤ پڑے گا کہ پورے ملک میں فوری عام انتخابات کرائے جائیں۔

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ اسپیکر نے پی ٹی آئی کے ان اراکین کے استعفے منظور کیے ہیں، جو سیاسی طور پر زیادہ متحرک ہیں۔لہذٰا اگر پی ٹی آئی کے اراکین ،قومی اسمبلی میں واپس آتے تو پھر آئندہ بجٹ اجلاس اور دیگر قانون سازیوں کے دوران حکومت کو زیادہ ٹف ٹائم کا سامنا نہیں ہو گا۔