|
دو برس قبل 10 اپریل 2022 کو عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان کی سیاست مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق ان دو برس میں ملکی سیاست میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ کئی خدشات کے باوجود انتخابات بھی ہوگئے۔ لیکن ملکی سیاست میں بے یقینی کے آثار ختم نہیں ہو سکے۔
اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں 10 اپریل کا دن اس لیے یادگار تھا کہ 1973 میں اسی روز ملک میں عوامی نمائندوں کا تشکیل دیا گیا آئین نافذ ہوا تھا۔
عمران خان پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنہیں اسی آئین میں دیے گئے تحریکِ عدم اعتماد کے طریقے کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات قائم ہوئے، ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور عدالت کی پیشیوں کے دوران کشیدہ صورتِ حال بھی پیش آتی رہی۔ تاہم وہ اقتدار سے محرومی کے باوجود ایک بھرپور سیاسی مہم چلاتے رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ برس اگست میں توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد انہیں لاہور سے گرفتار کے اٹک جیل اور پھر عدالتی حکم پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا جہاں ان کے خلاف کئی دیگر مقدمات بھی چلے اور ان میں سزائیں بھی ہوئیں۔
سال 2024 میں آنے والی 10 اپریل کی تاریخ عید کے دن آئی ہے اور اس روز تحریکِ انصاف سوشل میڈیا پر ’عید عمران خان کے ساتھ‘ کا ٹرینڈ چلا رہی ہے جب کہ ایک سال قبل وہ اسی دن یومِ سیاہ منا رہی تھی۔
بلاشبہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز دور کا آغاز ہوا جس میں کئی بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
SEE ALSO: کیسز میں ریلیف؛ کیا عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت ہو رہی ہے؟کیا کچھ بدلا؟
صحافی و تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے وقت عمران خان اپنی غلطیوں، خراب طرزِ حکمرانی اور بری سیاسی حکمتِ عملی کو تسلیم کرنے کے بجائے عوام کے لیے امریکی سازش کا پر کشش بیانیہ سامنے لے کر آئے جو جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بیانیے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا کہ تحریک عدمِ اعتماد کو اپوزیشن کی حب الوطنی کو چیلنج کرتے ہوئے مسترد کیا گیا۔
اس کے علاوہ عمران خان تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے اور بعد میں یہ الزام دہراتے رہے کہ ان کی حکومت امریکہ کی سازش کی وجہ سے ختم ہوئی۔
واضح رہے کہ امریکہ مسلسل اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے اور گزشتہ ماہ امریکہ کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں اس الزام کی تردید کی اور تفصیل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کیا۔
عمران خان اپنی حکومت گرانے کے لیے ڈونلڈ لو ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے کہ انہوں نے پاکستانی سفیر کو تحریکِ عدم اعتماد ہر صورت کامیاب ہونے کی دھمکی دی تھی۔
معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے گزشتہ ماہ ہونے والی امریکی کانگریس کی سماعت میں اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا تھا۔
عمران خان کے ناقدین کے مطابق امریکہ سے متعلق عمران خان کی مؤقف کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے وہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالف کو غیر ملکی سازش میں ملوث قرار دینے سے پاکستان کی سیاسی تقسیم بڑھی۔
تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد عدم برداشت اور سیاسی تقسیم میں اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی ماحول میں اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کی شدید محبت جب نفرت میں بدلی تو اس کا نتیجہ نو مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آیا۔
SEE ALSO: عمران خان کی حکومت گرانے میں امریکی مداخلت کا الزام جھوٹا تھا؛ ڈونلڈ لو کی کانگریس میں گواہیکشیدگی کا نقطۂ عروج
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سیاسی ماحول میں جس کشیدگی اور دباؤ کا آغاز ہوا تھا نو مئی اس کا نقطۂ عروج ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نو مئی کو پی ٹی آئی کے مظاہرین نے فوجی تنصیبات کا رُخ کیا اور کئی مقامات پر ان پر حملے ہوئے۔ فوجی عدالتوں میں سویلین کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہونے کی وجہ سے اب بھی معمہ بنا ہوا کہ ان ملٹری کورٹ میں ہونے والی کارروائی کی حیثت کیا ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ نو مئی 2023 کے واقعات سے سیاسی ماحول میں تناؤ میں مزید اضافہ بھی ہوا اور شہری آزدیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے ملوث ہونے کی تردید کرتے آئے ہیں اور اس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کئی بار دہرا چکے ہیں۔
پاکستان کی فوج نے اگرچہ کئی مرتبہ اپنے بیانات میں نو مئی کے واقعات کو ملک سالمیت اور ادارے پر حملہ قرار دیا ہے۔ تاہم اس کی جانب سے کبھی تحریکِ انصاف کو نام لے کر براہ راست ان واقعات کے لیے ذمے دار نہیں ٹھیرایا گیا ہے۔
البتہ تحریک انصاف کے کئی سرکردہ رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی اور فوجی عدالتوں میں نومئی واقعات کے مقدمات چلائے گئے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بھی گزشتہ دو برسوں میں انسدادِ دہشت گردی، مالی بے ضابطگیوں، ملکی راز افشا کرنے کے سائفر کیس اور عدت میں نکاح جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان میں سے بعض مقدمات میں انہیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جائے، امریکی ایوان کی فارن افیئرز کمیٹی میں قراداد منظورانتخابات کے بعد بے یقینی؟
نو مئی کے واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کے کئی اہم رہنماؤں نے پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرلیں اور انتخابات سے قبل تحریکِ انصاف اور آزاد مبصرین کی جانب سے بھی الیکشن میں’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہ ملنے کی شکایات سامنے آئیں۔
تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ حکومت جانے کے بعد تحریک انصاف پر حالات تنگ ہوتے گئے۔ گزشتہ دو برسوں میں تحریک انصاف کے کارکنان نے جس طرح ریاست کے جبر کا سامنا کیا اور مشکلات کے باوجود الیکشن میں اپنی رائے کا اظہار کیا اس کی مثال کم ملتی ہے۔
مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ نو مئی سے پیدا ہونے والے حالات میں انتخابات ہوئے جس میں عمران خان کی جماعت کامیاب نہیں ہوسکی اور انہوں نے الیکشن کی شفافیت پر سوال کھڑے کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پاچکی ہیں اور اعتراضات کے باوجود اب تحریکِ انصاف حکومت کا حصہ ہے اور عملی طور انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس لیے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اب سیاسی ماحول میں پایا جانے والا تناؤ بتدریج کم ہورہا ہے تاہم بے یقنی ختم نہیں ہوئی ہے۔
کیا حالات بدل رہے ہیں؟
رواں ہفتے نو مئی 2023 کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے الزام میں فوج کے زیرِ حراست 20 افراد کو عید سے قبل رہا کیا گیا۔ اس اقدام کو سیاسی حلقوں اور مبصرین کی جانب سے پی ٹی آئی کے لیے ریلیف قرار دیا گیا۔
اس سے قبل عمران خان کو مختلف مقدمات میں ملنے والے ریلیف کے بعد بھی ان کی عید کے بعد رہائی اور اسٹیبلشمنٹ سے کسی ممکنہ مفاہمت کی قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔
SEE ALSO: نو مئی کے ملزمان کی سزا میں کمی: کیا اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی دُوریاں کم ہو رہی ہیں؟تاہم پی ٹی آئی مفاہمت کے تاثر کو مسترد کر رہی ہے جب کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کی گئی عمران خان کی عدالت میں صحافیوں سے کی گئی گفتگو کی تفصیلات کے مطابق انہوں نے اپنے خلاف بننے والے مقدمات اور درپیش خدشات کے لیے براہِ راست آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ذمے دار قرار دیا۔
البتہ نو مئی کے ملزمان کی رہائی سے متعلق سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ کسی کو لامتناہی مدت تک قید نہیں رکھا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں نو مئی میں سزائیں پانے والے افراد کی معافی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ کچھ نرمی تو کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ حالات تو تبدیل ہوتے ہی ہیں۔ ممکن ہے کچھ نئے چہرے سامنے آئیں جن کی وجہ سے جو تبدیلیاں سست روی سے ہورہی ہیں وہ تیزی سے ہونے لگیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ فی الوقت دباؤ میں کمی بھلے ہی نظر آرہی ہو لیکن ملکی سیاست پوری طرح معمول پر آتی نظر نہیں آتی کیوں کہ اس کے لیے سیاست دانوں کا ایک ساتھ بیٹھ کر آگے کی راہ نکالنا ضروری ہے۔
ان کے بقول، اس وقت سیاست دانوں کے ایک ساتھ بیٹھے کے آثار نظر نہیں آتے جس کا مطلب ہے کہ بے یقینی کا یہ دور ابھی ختم نہیں ہوا۔
عمران خان کے مؤقف میں تبدیلی؟
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں عمران خان کی سیاسی مشکلات میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن کا شہباز شریف کو خط؛ 'چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا'ان کے بقول، اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کی صورت میں ایک اہم مرحلہ گزر چکا ہے۔ کابینہ بن چکی ہے۔ سینیٹ الیکشن ہو چکے ہیں اس لیے حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ عمران خان کی مشکلات میں کوئی کمی آسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے بھی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور ان سے متعلق خیالات میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے فی الوقت دونوں جانب سے مفاہمت میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔
تاہم مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ وہ ایک ’اَن پرڈکٹ ایبل‘ آدمی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ فی الوقت وہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں۔ لیکن عمران خان اب بھی انتظار میں ہیں کہ کب ماحول تبدیل ہوتا ہے۔ کب اسٹیبلمشنٹ میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور ماحول بدلتا ہے۔ اس وقت تک ان کا انتظار جاری رہے گا۔