پاکستان کے سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھی نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے بلکہ سیاست سے بھی وقفہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ فواد چوہدری نے کسی سیاسی جماعت سے راہیں جدا کی ہوں، اس سے قبل وہ پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان کے طور پر بھی سیاست کے میدان میں سرگرم رہ چکے ہیں۔
لیکن جو شہرت اور عروج اُنہیں پی ٹی آئی میں ملا وہ ماضی میں اُنہیں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے پر نہیں ملا تھا۔ اپنی شعلہ بیانی اور سیاسی حریفوں کو آڑے ہاتھوں لینے والے فواد چوہدری کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
رواں برس جب عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیا تو ان معاملات سے آگاہ افراد کے مطابق فواد چوہدری اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دینے والوں میں پیش پیش تھے۔
سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی بھی ایک نامعلوم شخص کے ساتھ گفتگو کی لیک ہونے والی مبینہ آڈیو میں اُنہوں نے پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کا ذمے دار فواد چوہدری کو قرار دیا تھا۔
فواد چوہدری کا سیاسی سفر
پنجاب کے ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے فواد چوہدری نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز سن 2002 میں ہونے والے عام انتخابات سے کیا جو ان کے لیے زیادہ خوش گوار نہیں تھا۔
پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 25 جہلم سے اُنہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا لیکن وہ صرف 161 ووٹ حاصل کر سکے۔ بعدازاں وہ کچھ عرصہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کا حصہ رہے۔
سن 2008 میں جب سابق صدر پرویز مشرف اقتدار سے رُخصت ہوئے تو فواد چوہدری اُن کے ترجمان کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ سابق صدر نے 2011 میں جب اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کی بنیاد رکھی تو فواد چوہدری اس کے بھی ترجمان مقرر ہوئے۔
سن 2012 میں فواد چوہدری نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اُنہیں اپنا معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و سیاسی اُمور مقرر کیا۔ بعدازاں جب راجہ پرویز اشرف وزیرِ اعظم بنے تو اُنہوں نے بھی فواد چوہدری کو اس عہدے پر برقرار رکھا۔
سن 2016 میں فواد چوہدری نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی اور مختلف پارٹی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے کامیابی حاصل کی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے خواہش مند تھے، لیکن عمران خان نے اُنہیں نظرانداز کر کے سردار عثمان بزدار کو وزیرِ اعلٰی مقرر کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ فواد چوہدری عثمان بزدار کے طرزِ حکومت پر تنقید کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔
سن 2018 میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو فواد چوہدری کو وزیرِ اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا، تاہم کچھ عرصے بعد اُنہیں وزارتِ سائنس کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ لیکن بعدازاں وہ پھر وزیرِ اطلاعات بنے۔
اسٹیبلشمنٹ سے دُوریاں بڑھانے میں کردار
سلمان غنی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری بلا کے ذہین اور اچھے مقرر ہونے کے باعث پارٹی قیادت کے قریب رہنے کا ہنر جانتے تھے۔
اُن کے بقول یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف پرویز مشرف بلکہ پیپلزپارٹی کے دو وزرائے اعظم کے علاوہ عمران خان کا دل جیتنے میں بھی کامیاب رہے اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اُنہیں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔
سلمان غنی کہتے ہیں فواد چوہدری کا شمار پی ٹی آئی کے اُن رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے گزشتہ برس پی ٹی آئی کے اقتدار سے نکلنے کے بعد مزاحمتی سیاست پر زور دیا۔
ان کے بقول گزشتہ برس جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تو اس کا مشورہ دینے والوں میں بھی فواد چوہدری شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزاحمتی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے ذریعے پی ٹی آئی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوئی لیکن اس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئے۔
سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ گو کہ فواد چوہدری عمران خان کے اہم مشیر تھے، لیکن عمران خان جب کسی فیصلے کی ٹھان لیتے تھے تو وہ کسی کی نہیں سنتے تھے۔
SEE ALSO: پاکستان میں سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟فواد چوہدری کا مستقبل کیا ہو گا؟
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے چچا چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں جب کہ ایک چچا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فواد چوہدری کا سیاسی پس منظر کافی طویل ہے۔ لہذٰا اُن کی سیاست میں واپسی ہو سکتی ہے۔
اُن کے بقول کچھ وقت گزرنے کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے عناصر کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر ضرور اکٹھے ہوں گے اور ان میں فواد چوہدری بھی شامل ہوں گے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ سیاست دان کے پاس ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ آپ انہیں ایک جگہ سے ماریں گے تو وہ کسی دوسری طرف سے سامنے آ جائیں گے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر سے کوئی نئی پارٹی وجود میں آ جائے تو فواد چوہدری اس کا حصہ بن جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حامد خان سے تنازع
فواد چوہدری کے اپنے سیاسی کریئر کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سینئر وکیل حامد خان سے تعلقات بھی تناؤ کا شکار رہے۔
حامد خان نے 2018 میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ"فواد چوہدری کے چچا جب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے تو وہ پیسے پکڑ کر فیصلے کراتے تھے۔"
فواد چوہدری متعدد مواقع پر ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیاں دینے کے معاملے پر جب توہینِ عدالت کے کیس کا سامنا تھا تو حامد خان اُن کے وکیل تھے۔
اس دوران بھی حامد خان اور فواد چوہدری کی نوک جھونک جاری رہی تھی۔