نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے تو وہیں بڑی تعداد میں رہنما پارٹی سے راہیں جدا بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کی سب سے مقبول جماعت سمجھی جانے والی پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
بدھ تک تحریکِ انصاف کی اہم رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری، فیاض الحسن چوہان، ملک امین اسلم، عثمان ترکئی سمیت کئی رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں جب کہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ سکتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان پارٹی چھوڑنے والوں کو 'جبری شادیوں' کی طرح 'جبری گمشدگیاں' قرار دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جن قوتوں نے پی ٹی آئی کو دوام بخشا تھا اب وہی ان کے درپے ہیں اور پارٹی ایک بحران جیسی صورتِ حال سے دوچار ہے ۔
'مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اچانک بحران کا شکار ہو گئی ہے اور اُن کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے اور اب عمران خان کی بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لائحہ عمل اختیار کریں۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے آنے والے دنوں میں حالات ایسے ہی رہیں گے جس کا لامحالہ پارٹی کو نقصان ہو گا۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے اس صورتِ حال سے نکلنا بڑا چیلنج ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوج اس وقت کسی صورت کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی نہ تو مزید مزاحمت کی متحمل ہو سکتی ہے اور نہ ہی بالکل دفاعی پوزیشن اختیار کر سکتی ہے کیوں کہ اس سے اسے سیاسی نقصان ہو گا۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کو بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کی سیاست میں 'آئیڈلزم' کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اقتدار کے اصل مراکز کے ساتھ مل کر ہی چلنے میں عافیت ہے۔
احمد بلال کے بقول کسی بھی نظام میں تبدیلی اتنی جلدی نہیں آتی اور جمہوریت میں تبدیلی بہت آہستہ ہوتی ہے۔ اِس صورتِ حال کا ادراک عمران خان کو بھی ہو جائے گا اور اُن کے ماننے والوں کو بھی ہو جائے گا۔
کیا عمران خان خود اپنے کیے کے قصوروار ہیں؟
مبصرین کی رائے میں عمران خان نے خود اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اُنہوں نے طاقت اور اختیار رکھنے کے باجود خود سے کوئی بھی اپنی پالیسی نہیں بنائی۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب خود اِس لیے بھی قصوروار ہیں کہ اُنہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت، تعاون اور اُن کی تھپکی کو تو بہت خوش دِلی سے قبول کیا اور اب ان کے خلاف ہی مزاحمت کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول گزشتہ برس اقتدار سے علیحدگی کے بعد عمران خان نے یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کیے جس سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوئی اور نو مئی کے واقعات نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔
احمد بلال محبوب کے بقول عمران خان سمجھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے سے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، لیکن اُن کے یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔
کیا اسٹیبلشمنٹ مقبول جماعت کو ختم کر سکتی ہے؟
مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ مقبولیت کوئی مستقل چیز نہیں ہوتی۔ سیاست میں گراف گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب عمران خان اقتدار سے رخصت ہوئے ہیں تو اُن کی مقبولیت خاصی کم تھی۔ اُس کے بعد جب اُنہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر مہم چلائی تو وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اَب جو حالات پیدا ہو گئے ہیں اِس نے اُن کو کتنا متاثر کیا ہے اِس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہو گا۔ اُن کے بقول اَب اُن کی مقبولیت کی وہ پوزیشن نظر نہیں آ رہی جو کچھ عرصہ قبل تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کی گرفت
خیال رہے عمران خان کے سیاسی مخالفین اُن پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کے ایوانوں تک آئے ہیں جس کے لیے اُن کے لیے سلیکٹڈ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
احمد بلال محبوب کے بقول پاکستان میں گزشتہ 70 برسوں میں اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت کے طور پر موجود رہی ہے۔ اُسی نے ہر چیز کو گرفت میں لیا ہے اور وہی حتمی فیصلے کرتی ہے۔ وہی لوگوں کو سزا اور جزا دیتی ہے۔ یہ پاکستان کی ایک تلخ اور تکلیف دہ حقیقت ہے۔
صورتِ حال بہتر کیسے ہو گی؟
مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں اگر عمران خان اپنی سیاسی حکمتِ عملی کو درست کریں تو مستقبل میں بہتری کا کوئی امکان ہو سکتا ہے، بصورتِ دیگر اُن کے لیے حالات بہت مشکل ہیں۔
احمد بلال محبوب کی رائے میں اِس بات کا انحصار اِس بات پر ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمٹ ملک کی سیاست کو کتنا آزاد چھوڑتی ہے۔ اگر وہ آزاد چھوڑ دیتی ہے تو پھر تو ارتقا کا عمل چلے گا جس سے سیاسی جماعتیں بہتر ہوتی چلی جائیں گی اور بہتر قیادت بھی سامنے آ جائے گی۔
اُن کے بقول اگر اسی طرح سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی گئی تو پھر نہ تو اچھی قیادت میدان میں آ سکے گی اور نہ ہی سیاسی جماعتیں متحرک ہو سکیں گی۔