القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے خلاف فیصلہ؛ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟

  • بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ دباؤ ڈالنے کے لیے سزائیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن صورتِ حال کس وقت بدل جائے اس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
  • جب مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جاتے اور کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو پھر سزاؤں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے: تجزیہ کار احمد بلال محبوب
  • اگر آرمی چیف اور پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات میں کوئی پیش رفت ہوتی تو عمران خان کو فی الحال سزا نہ ہوتی: تجزیہ کار مظہر عباس
  • ملاقات کے سیاسی فوائد آنے ہیں اُس بارے ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن پاکستانی حکومت پر عمران خان کے حوالے سے یورپ اور امریکہ کا بہت دباؤ ہے: چوہدری غلام حسین

لاہور -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین کیس میں سزاؤں کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کا مستقبل بھی غیر یقینی ہو گیا ہے۔

عمران خان کو 14 سال جب کہ اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس قید کی سزا ایسے وقت میں ہوئی ہے جب جمعرات کو تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے ہمراہ آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی تھی۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات اُن کے سامنے رکھے تھے۔

بیرسٹر گوہر خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ملاقات میں دوسری جانب سے مثبت اشارے ملے ہیں، تاہم ایک روز بعد ہی اس فیصلے نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان دُوریوں کے تاثر کو تقویت دی ہے۔

خیال رہے کہ آرمی چیف نے خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی صورتِ حال پر صوبے کی سیاسی قیادت کے ساتھ پشاور میں ایک نشست کی تھی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور بھی شریک ہوئے تھے۔

پاکستان کی فوج نے بیرسٹر گوہر اور وزیرِ اعلٰی کی ملاقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات صرف سیکیورٹی معاملات تک ہی محدود تھی۔

'مذاکرات اور سزائیں ساتھ ساتھ بھی چلتی رہی ہیں'

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ دباؤ ڈالنے کے لیے سزائیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن صورتِ حال کس وقت بدل جائے اس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ جہاں تک بات ہے حکومت سے مذاکرات کی تو پی ٹی آئی کے مختلف رہنما یہ بیان دے چکے ہیں کہ مذاکرات کا 190 ملین پاؤنڈ کیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر عمران خان کو سزا ہو بھی جاتی ہے تو مذاکرات جاری رہیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ بھی تاثر دیا گیا تھا کہ اُن ملاقاتوں کے نتیجے میں شاید عمران خان کو ریلیف ملے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت تحریکِ انصاف کے ساتھ کوئی سیاسی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی اور بیرسٹر گوہر سے ملاقات میں بھی شاید سیاسی صورتِ حال پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

'عمران خان کے خلاف یہی سب سے مضبوط کیس ہے'

پاکستان میں جمہوری اقدار سے متعلق ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مذاکرات اور دباؤ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ کیوں کہ جب مذاکرات ہو رہے ہوں تو باقی چیزیں نہیں رُکتیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جاتے اور کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو پھر سزاؤں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سزا کے خلاف اپیلیں ہوں گی اور وہاں بھی ریلیف ملنے کا موقع موجود ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'عمران خان کو پہلے ہی پیغام مل گیا تھا کہ آپ کو 14 سال قید ہو گی'

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اِس مقدمے میں سزا تو ہونا ہی تھی جس کی وہ توقع بھی کر رہے تھے البتہ اِس نکتے پر بات ہو سکتی ہے کہ سزا کم ہونی چاہیے تھی یا زیادہ۔ سزا ہونے کی توقع زیادہ اور بری ہونے کی توقع کم تھی کیوں کہ عمران خان کے خلاف اب تک جتنے بھی مقدمات بنے ہیں اُن میں یہ مضبوط کیس ہے۔

'مذاکرات کا معاملہ ڈانواں ڈول ہے'

کالم نویس اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اگر آرمی چیف اور پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات میں کوئی پیش رفت ہوتی تو عمران خان کو فی الحال سزا نہ ہوتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آگے اپیل میں کیا ہوتا ہے یہ الگ بات ہے۔ لیکن مذاکرات کی صورتِ حال جہاں تک بات ہے مذاکرات کی تو ابھی صورتحال ڈانواں ڈول ہے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر فوجی قیادت کا نو مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے مؤقف واضح اور سخت ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ ملاقات کے سیاسی فوائد آنے ہیں اُس بارے ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن پاکستانی حکومت پر عمران خان کے حوالے سے یورپ اور امریکہ کا بہت دباؤ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو بین الاقوامی دباؤ ہے اُس پر موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بے بس دکھائی دے رہی ہے۔

چوہدری غلام حسین نے دعویٰ کیا کہ احتساب عدالت کے جج عمران خان کو کم سزا دینا چاہتے تھے۔ لیکن اُن پر دباؤ ڈال کر اسے 14 سال کرایا گیا ہے۔

سیاسی حلقے اِس بات کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں کہ اگر صرف سیکیورٹی کے حوالے سے ملاقات کرنا تھی تو کور کمانڈر پشاور یہ ملاقات کر سکتے تھے۔ اِس ملاقات میں آرمی چیف خود کیوں شریک ہوئے؟

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اِس وقت فوجی قیادت پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ عمران خان سے یا تحریکِ انصاف سے کوئی سیاسی بات چیت کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے جو دباؤ دوسرے ممالک سے آ رہا تھا اُس کا بھی تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ اُن کی رائے میں پی ٹی آئی خود سے اپنی مرضی کا پروپیگنڈا تخلیق کرتی ہے، اُسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور خود سے ہی اُسے ماننے لگ جاتی ہے۔

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر آرمی چیف کو پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کرنا ہوتا یا ملاقات کرنا ہوتی تو ایسی ملاقاتیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جن کا نہ کسی کو پتا ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کی خبریں سامنے آتی ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اِس ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ملاقات میں سیاسی باتیں بھی ہوئی ہیں جس کا سیکیورٹی ادارے نے دو ٹوک بتا دیا تھا کہ یہاں پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہو سکتی۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ سیاسی گفتگو صرف سیاسی جماعتوں سے ہو گی جس سے کسی نے بھی کوئی انکار نہیں کیا۔

مظہر عباس سلیم بخاری کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لگتا تو نہیں کہ فوجی قیادت پر عمران خان کے حوالے سے کوئی دباؤ ہے لیکن چوں کہ ملاقات ہوئی ہے تو اسے بریک تھرو کہا جا سکتا ہے۔ بات چیت ضرور ہوئی ہے جس میں سیاسی مطالبات فوجی قیادت تک پہنچا دیے گئے ہیں جس کے بعد دونوں فریقین نے وضاحتیں بھی دیں ہیں۔