پاکستان کے صوبۂ سندھ کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کراچی میں 'سندھ سیف سٹی' منصوبے کے تحت 10 ہزار ہائی ریزولوشن کیمروں کی تنصیب کے لیے فوری طور پر فنڈز جاری کیے جائیں گے اور منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل قانونی اور فنڈز کی کمی کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔
اس بات کا فیصلہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدرات ہونے والی ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں فوجی اور سویلین افسران شریک تھے۔
اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے تحت شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ہر آنے جانے والی ٹریفک اور لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 'سیف سٹی' منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے جس کے تحت نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشترکہ سروے مکمل کیا جا چکا ہے۔
اس منصوبے کے تحت چہروں کی شناخت کا سسٹم، مؤثر ٹریفک مینیجمنٹ سسٹم، وسیع تر ڈیٹا اینالائز سسٹم، ای پیٹرولنگ اور ماڈل پولیس اسٹیشنز یا اسمارٹ پولیس اسٹیشنز اور سندھ پولیس کی آٹومیشن کے منصوبے شامل ہیں۔
تاہم حکام کے مطابق سیف سٹی پراجیکٹ کے اہم نکات پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔
منصوبے کے تحت کراچی میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے دو ہزار مقامات پر 10 ہزار کیمروں کی تنصیب کا کام شروع کیا جانا ہے جس کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ نے بلاک ایلوکیشن سے فنڈز کے اجرا کا عندیہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ منصوبے کی کل لاگت 24 ارب روپے ہے۔ سندھ سیف سٹی بل کے تحت 'سندھ سیف سٹی اتھارٹی' کے قیام کے لیے قانونی عمل ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
حکام کے مطابق اس منصوبے کو سندھ حکومت کا محکمۂ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سندھ پولیس کا آئی ٹی ونگ مشترکہ طور پر چلائے گا۔ تاہم پولیس حکام کا اس بارے میں مؤقف ہے کہ اس منصوبے کو بہتر نتائج کے لیے صرف پولیس کے زیر انتظام کیا جائے۔
'سیکیورٹی نظام کو پولیس کے زیرِ انتظام ہونا چاہیے'
ماہرین کراچی میں 'سیف سٹی' منصوبے پر عمل درآمد شروع کرنے کے اعلان کو خوش آئند تو قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد میں پہلے ہی دس سال کی تاخیر ہو چکی ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل سندھ فیاض لغاری اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ منصوبے پر فوری عمل درآمد شروع کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان کے خیال میں اس پورے نظام کو بہتر نتائج کے لیے مکمل طور پر پولیس کے زیرِ انتظام ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے کچھ حصوں پر عمل درآمد شروع تو کیا گیا لیکن اس کے بہت سے اجزا پر کام ابھی باقی ہے۔
فیاض لغاری کا کہنا تھا کہ شہر میں جرائم بالخصوص بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے 'سیف سٹی پراجیکٹ' کے تحت خودکار کیمروں کی مدد سے پولیسنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔
سابق آئی جی پولیس نے منصوبے کی افادیت کو بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی تکمیل سے جہاں پولیس کو شہر بلکہ صوبے بھر میں جرائم کی بیخ کنی میں مدد ملے گی وہیں مرکزی کنٹرول روم میں پولیس کی سرگرمیوں پر بھی مکمل نظر رکھی جا سکے گی جس سے وہ بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرسکے گی۔
اُن کے بقول اصل مسئلہ کیمروں کی تنصیب اور دیگر سہولیات کی فراہمی نہیں بلکہ اس کے لیے جاری اخراجات کے لیے بجٹ مختص ہونا ضروری ہے۔ شہر میں اکثر مقامات پر کیمرے تو نصب ہیں مگر وہ کام نہیں کر رہے ہوتے جس سے ان کی تنصیب بے کار ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے جاری اخراجات کے لیے متوازن بجٹ ہونا ضروری ہے۔
سیف سٹی منصوبے کے تحت 30 ایکڑ زمین پر ایک بڑی فرانزک لیبارٹری کے قیام کا بھی منصوبہ ہے، جس میں آڈیو ویڈیو تجزیات کی سہولت کے علاوہ کمپیوٹر فرانزکس، کرائم سین انویسٹی گیشن، ڈی این اے اور سیرولوجی کی سہولیات، فرانزک فوٹو گرافی، منشیات کا سراغ لگانے کے لیے جدید تکنیک، ٹیکسیکولوجی، فنگر پرنٹس اور دیگر سہولیات ایک ہی چھت تلے مہیا ہوسکیں گی۔
واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور صوبۂ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سیف سٹی پراجیکٹس گزشتہ کئی برسوں سے مستعدی سے کام کر رہے ہیں لیکن کراچی میں اب بھی اس منصوبے پر مستقبل قریب میں عمل درآمد اور اس کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آرہی۔
اس سے قبل بھی یہ منصوبہ محکمۂ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پولیس حکام کے درمیان چپقلش کے باعث برسوں تاخیر کا شکار رہا ہے۔
سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ایک بیان میں یہ کہہ چکے ہیں کہ دو کروڑ کی آبادی والا کراچی جہاں کی آدھی آبادی کچی آبادیوں میں رہتی ہے وہاں کیسے محض 2500 کیمرں کی مدد سے شہر میں امن و امان بحال رکھنے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
کراچی میں جرائم کے اعداد و شمار
کراچی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران امن و امان کی صورتِ حال میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں 2789 افراد کو شہر میں قتل کیا گیا جب کہ 2019 میں ایسے واقعات کی تعداد 491 ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح 2013 میں شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے 509 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن 2019 میں یہ تعداد کم ہو کر 12 ہو گئی۔ شہر میں اغوا برائے تاوان کی 2013 میں 78 وارداتیں رپورٹ ہوئیں جو 2019 میں 41 ہو گئی۔
بھتہ خوری کے 2019 کے اختتام پر ایک سال میں 128 کیسز درج ہوئے جو 2013 میں 533 تھے۔ پولیس حکام کے مطابق ایک جانب جہاں سنگین وارداتوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے وہیں شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں موبائل فونز، نقدی، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس 2685 جرائم پیشہ افراد کو ڈکیتیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 416 کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا جب کہ 19 پولیس مقابلوں کے دوران ہلاک ہوئے اور 3 ہزار 121 کی تعداد میں اسلحہ بھی ان جرائم پیشہ افراد سے برآمد کیا گیا۔
اسی عرصے کے دوران 90 ڈاکو رہا ہوئے جن میں سے اکثر اپنی گرفتاری کے ایک ہی ہفتے میں رہا کیے گئے۔
صوبائی حکومت نے جرائم پیشہ خصوصاً اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کے لیے سرکاری وکلا اور تفتیشی افسران کو ٹریننگ فراہم کرنے اور رہائی پانے والوں کے خلاف آئندہ اپیلیں دائر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔