کیا چین کی فضائیہ 2035 تک امریکہ کی ایئر فورس کو پیچھے چھوڑ دے گی؟

PLAAF2

کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں مختلف تنازعات کے دوران امریکی فوج کو اپنے حریف ممالک کے مقابلے میں فضائی برتری حاصل رہی ہے۔ تاہم اب دفاعی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اپنی فضائی قوت کو مسلسل بہتر بنا رہا ہے لہٰذا امریکہ زیادہ عرصے تک اپنی فضائی برتری پر انحصار نہیں کر سکے گا۔

گزشتہ ماہ ایئر فورس ایسوسی ایشن کانفرنس سے خطاب کے دوران امریکی ایئر فورس کے چیف آف اسٹاف جنرل چارلس براؤن جونیئر نے کہا تھا کہ "چینی فضائیہ ہند بحرالکاہل (انڈو پیسفک) خطے کی سب سے بڑی ایوی ایشن فورس بن چکی ہے اور یہ سب کچھ ہماری ناک کے نیچے ہوا ہے۔"

براؤن نے پیش گوئی کی تھی کہ چینی فضائیہ 2035 تک امریکی فضائیہ کی برتری ختم کر سکتی ہے۔

اس کانفرنس میں امریکی فوج کے لیفٹننٹ جنرل ایس کلن ہائنو نے خبردار کیا تھا کہ جس رفتار سے چینی فضائیہ ترقی کر رہی ہے امریکہ اس رفتار میں آگے نہیں بڑھ رہا۔

اُن کے بقول کچھ اہم شعبوں میں ہم آج اُن سے پیچھے ہیں اور یہ کل کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ آج کی بات ہے۔

ہائنو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور ایسے شخص کے جسے حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ چینی فضائیہ امریکی فضائیہ کی ترقی کے مدِمقابل آ کھڑی ہوئی ہے۔

اُنہوں نے خبردار کیا کہ "لائٹ اب سرخ ہو رہی ہے۔"

چینی ایئر فورس کا اپنی فضائی قوت کا مظاہرہ

چینی فضائیہ کے لگ بھگ 150 لڑاکا طیاروں نے حال ہی میں تائیوان کی فضائی حدود میں پروازیں کی تھیں جن میں اس کے سب سے جدید جے-16 لڑاکا اور ایچ-6 بمبار طیارے بھی شامل تھے۔

چین کے اس اقدام کو اپنی فضائی قوت کا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ایم آئی ٹی سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے محقق ایرک ہیگن بوتھم کہتے ہیں کہ چینی فضائیہ اپنی تمام صلاحیتوں کا مکمل پیکج سامنے لا رہی ہے۔ وہ آبدوز شکن طیارے بھی سامنے لا رہے ہیں۔

امریکی ایئر فورس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق امریکی ایئر فورس کے سیکریٹری فرینک کینڈل نے گزشتہ ماہ ہونے والی ایئر فورس کانفرنس میں چین کا 27 مرتبہ جب کہ روس کا تین اور افغانستان کا صرف ایک بار نام لیا۔

آرٹیکل کے مطابق کینڈل نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں زور دیا تھا کہ چین کو 'خوف زدہ' کرنے کے لیے امریکہ کو نئی ٹیکنالوجی پر کام کرنا ہو گا۔

کینڈل کی جانب سے چین کو خوف زدہ کرنے کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے چینی فضائیہ کے ایک سینئر افسر وانگ وی نے کہا تھا کہ امریکی فضائیہ اگر چاہے تو فضا میں اس سے 'ملاقات' کے لیے تیار ہیں۔

امریکی ایئر فورس کی برتری کہاں ختم ہو سکتی ہے؟

امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی پالیسی ریسرچر کرسٹینا گیرافولہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چینی فضائیہ کی تائیوان میں حالیہ پروازیں اس کی بہتر ہوتی صلاحیتوں کی عکاس ہیں۔

اُن کے بقول "چینی فضائیہ کی بڑھتی ہوئی صلاحیت ہند بحرالکاہل خطے میں فضائی آپریشنز کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔"

رینڈ کارپوریشن میں سینئر ڈیفنس ریسرچر ٹیموتھی ہیتھ کہتے ہیں کہ چینی فضائیہ بعض تیکنیکی صلاحیتوں میں اب بھی امریکی ایئر فورس سے پیچھے ہے۔ لیکن اس کی پیادہ فورس تائیوان میں لڑائی کی صورت میں ممکنہ امریکی مداخلت کے لیے خطرہ ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیموتھی کا کہنا تھا کہ تائیوان سے قریب ہونے کے باعث چینی فوج امریکی بحری بیڑوں اور اڈوں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی میں زمین سے فضا تک مار کرنے والے اور اینٹی شپ بیلسٹک میزائلز کا استعمال کر سکتی ہے۔

اُن کے بقول یہ صلاحیت تائیوان میں کسی بھی مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے چینی فضائیہ کے لیے بہت سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تائیوان میں کسی بھی فضائی لڑائی کی صورت میں چین کو بہرحال ایک برتری حاصل ہو گی کیوں کہ تائیوان اس کے پانیوں سے صرف 161 کلو میٹر دُور ہے۔ جب کہ جاپان میں امریکی ایئر بیس اس سے 700 کلو میٹر کی دُوری پر ہے اور بحرالکاہل میں امریکی جزیرے گوام سے اس کا فاصلہ 2700 کلو میٹر ہے۔

آسٹریلیا کے شہر برسبن میں واقع گرفتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے فیلو پیٹر لائٹون کہتے ہیں کہ امریکی فضائیہ تائیوان کی فضائی حدود پر ایک سے دو گھنٹے تک اپنی برتری برقرار رکھ سکتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

گزشتہ ماہ اخبار 'ایئر فورس ٹائمز' کو دیے گئے انٹرویو میں بھی امریکی ایئر فورس کے سیکریٹری فرینک کینڈل کا کہنا تھا کہ یہ ایک مفروضہ ہے کہ امریکہ ایک غالب فضائی قوت ہے۔

اُن کے بقول ہم دنیا میں فضائی برتری رکھتے ہیں لیکن جب آپ چین کے اطراف ایک ہزار میل تک پہنچتے ہیں تو چیزیں بدل جاتی ہیں۔

سن 2015 میں کی گئی 'رینڈ کارپوریشن' کی ایک تحقیق کے مطابق گو کہ امریکہ اب بھی فضائی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں، لیکن چینی فضائی صلاحیت میں مسلسل اضافہ اور نت نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال امریکہ کے لیے بدستور ایک خطرہ ہے۔

سن 2016 میں بھی امریکی محکمۂ دفاع کے مطالعے میں کہا گیا تھا کہ 2030 تک امریکہ کو مشکل حالات میں کڑا مقابلہ درپیش ہو سکتا ہے جہاں اس کی فضائی برتری برقرار رکھنے کی صلاحیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

پیٹر لائٹون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2016 میں امریکی ایئر فورس کے ایک مطالعے میں بھی کہا گیا تھا کہ امریکہ اس راہ پر گامزن ہے جہاں دور دراز کے علاقوں میں جنگ کے دوران اس کی فضائی برتری ختم ہو سکتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان خدشات کے پیشِ نظر امریکی فضائیہ نے ایکوئپمنٹ موڈرنائزیشن پروگرام شروع کیا ہے جس میں بی 21 بمبار طیاروں کی طرح نئی ٹیکنالوجی سے لیس طیاروں کو فضائیہ میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم اُن کے بقول 2030 تک شاید ان تمام اقدامات سے کچھ زیادہ فرق نہ پڑ سکے۔