افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور ملک کے نصف کے قریب صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے بعض حکام اور عالمی مبصرین کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔ خاص طور یہ سوال اہم ہے کہ اس بڑے پیمانے پر لڑائی جاری رکھنے کے لیے طالبان مالی وسائل کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق طالبان کی تیز ترین پیش قدمی کا تعلق ان کے پاس موجود بڑے پیمانے پر مالی وسائل سے ہے جس کے نتیجے میں اس گروہ کو کروڑوں اور شاید اربوں ڈالرز تک رسائی ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان مالی وسائل جمع کرنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں اس کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ البتہ طالبان جنگجوؤں کی مالی اعتبار سے موجودہ خود انحصاری سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ گروپ کی آمدن 30 کروڑ ڈالرز سے ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز سالانہ تک ہو سکتی ہے۔
رواں برس جون میں جاری ہونے والی دیگر ممالک کی فراہم کردہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مبنی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان زیادہ تر افیون کی پیداوار، منشیات کی اسمگلنگ، بھتے اور اغوا برائے تاوان جیسی مجرمانہ سرگرمیوں سے مالی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔
ایک خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ اس میں صرف منشیات کی اسمگلنگ سے ہونے والی کمائی ممکنہ طور پر 46 کروڑ ڈالرز سالانہ سے زائد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل سے بھی اضافی رقم حاصل کی ہے۔ انہیں گزشتہ برس کان کنی سے 46 کروڑ ڈالر سے زائد رقم حاصل ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان قیادت کو ’غیر سرکاری خیراتی اداروں‘ اور امیر حامیوں سے بھی بڑی تعداد میں عطیات اور امداد ملتی ہے۔
دوسری جانب امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ روس طالبان کو مالی وسائل، ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگست 2018 میں وائس آف امریکہ کو بھیجی گئی ایک ای میل میں افغانستان میں امریکی فورسز کے اس وقت کے کمانڈر جنرل جان نکلس نے کہا تھا کہ روس اس حمایت کے ذریعے امریکہ کی کامیابیوں اور افغانستان کے استحکام کی کوشش کو بے اثر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان اور کسی حد تک ایران سے بھی فنڈز ملتے رہے ہیں۔
پاکستان طالبان کی مالی یا عسکری مدد کرنے کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
اگرچہ طالبان بظاہر اتنے مالی وسائل جمع کرنے میں کامیاب رہے ہیں جن کے بل پر وہ افغانستان پر اپنا قبضہ جما سکتے ہیں لیکن اس بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں کہ افغانستان میں حکومت چلانے کے لیے بھی کافی وسائل رکھتے ہیں یا نہیں۔
عالمی بینک کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق افغان حکومت نے 2018 کے دوران 11 ارب ڈالرز خرچ کیے جس میں سے 80 فی صد غیر ملکی امداد سے ملے تھے۔
رواں برس مارچ میں امریکہ کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) جان سوپکو کا کہنا تھا کہ طالبان بھی افغانستان کے لیے غیر ملکی امداد کی اشد ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رواں ماہ افغانستان میں مفاہمت کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے سیکیورٹی فورم سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ طالبان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے غیر ملکی امداد کتنی ضروری ہے اس لیے امریکہ کو ان پر یہ برتری حاصل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ انہیں مدد کی ضرورت ہوگی اس لیے وہ سفارتی طور پر تنہا ریاست بننا نہیں چاہیں گے۔
لیکن بعض مبصرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم فاؤنڈیشن فار دی ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار بل روگیو کا کہنا ہے کہ طالبان کو غیر ملکی امداد یا بین الاقوامی سطح پر اپنی قانونی حیثیت کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اقتدار حاصل کرنا ان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔
بعض سابق امریکی حکام اس بارے میں خبردار کرتے ہیں کہ معاشی اعتبار سے دباؤ کا سامنا ہونے سے قبل ہی طالبان پورے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ محکمۂ خزانہ کے سابق عہدے دار واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیر ایسٹ پالیسی میں انسدادِ دہشت گردی پروگرام کے ڈائریکٹر میتھیو لیوٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دیگر عسکریت پسندوں کی طرح یہ بھی جب علاقوں پر قبضہ کرتے ہیں تو یہی ہوتا ہے کہ انہیں مرکزی بینک کی تجوریوں، حکومتی کھاتوں اور ٹیکس کے حصول کے مواقع مل جاتے ہیں۔
SEE ALSO: کیا افغان طالبان کی پیش قدمی پاکستان میں ٹی ٹی پی کی مضبوطی کا باعث بنے گی؟لیوٹ کے مطابق غیر ملکی امداد کے اربوں ڈالرز ہاتھ سے جانے کے بعد بھی طالبان باقی رہیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی امداد رکنے سے افغانستان کو مسائل کا سامنا ہوگا لیکن طالبان کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔