افغانستان میں سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان کے خلاف تعزیرات عائد کرنے کے مطالبے کے لئے"#سینکشن پاکستان" نامی ایک مہم شروع کر رکھی ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ طالبان کی مبینہ مدد پر پاکستان پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ افغان صدر اشرف غنی گزشتہ ماہ یہ کہہ چکے ہیں کہ 10,000 جہادی جنگجو پاکستان اور دیگر مقامات سے افغان سیکیوریٹی فورسز کے خلاف لڑنے والے طالبان میں شامل ہونے کے لئے ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔
تاہم پاکستان مسلسل ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ طالبان کو کوئی فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود 30 لاکھ افغان پناہ گزین طالبان جنگجوؤں کی ممکنہ پناہ گاہ ہیں۔
کابل سے انسانی حقوق کی کارکن فروغ وزمہ نے ایک ٹویٹ میں الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ ساڑھے تین کروڑ افغان آبادی کے مقابلے میں پاکستان ایک لاکھ سے بھی کم طالبان کا ساتھ دے رہا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ آج ہر افغان گھر پاکستان کا دشمن بن چکا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان کے لیے یہ اتنا اہم ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ بقول ان کے پاکستان کی ریاست افغان قوم کا ساتھ کیوں نہیں دیتی، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور جن کا پاکستانیوں سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سابق سفارت کار اور سیاستدان کرس الیگزینڈر نے ایک ٹویٹر پر سینکشن پاکستان کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ پاکستان کی ،بقول ان کے، افغانستان پر چڑھائی اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں چیپٹر کے مطابق مسلح حملے اور جارحیت ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 41 اور 42 کے تحت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ عالمی قوانین کی پابندی ہو اور ضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام قائم رہے۔
پاکستانی عہدیداروں نے ایسے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے
دوسری طرف پاکستان میں اعلیٰ سویلین اور سیکیورٹی کے عہدیداروں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جنگی کامیابیوں کے پیچھے اسلام آباد کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کو ان کے متحارب افغان فریق سے بات چیت پر آمادہ کر سکیں۔
افغانستان کے ان الزامات پر کہ پاکستانی فوج مسلسل طالبان کی مدد کر رہی ہے، منگل کے روز پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے وائس آف امریکہ کو ایک تحریری بیان میں کہا کہ "خود نشانہ بننے والوں پر الزام تراشی بند کی جائے۔" ان کا اشارہ افغان رہنماوں کی جانب سے پاکستان کے بارے میں حالیہ دنوں میں جاری کئے گئے بعض منفی بیانات کی جانب تھا۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ امریکی قیادت میں افغانستان کی جنگ میں شریک ہونے کے باعث اندرونِ ملک عسکریت پسندوں کی جوابی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کو 80,000 سے زیادہ کا جانی اور 150 ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مئی میں جب سے امریکی اور نیٹو کے اتحادی ممالک نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کی ہیں، طالبان نے افغانستان کے درجنوں اضلاع اور کئی صوبائی دارالحکومت قبضے میں لے لئے ہیں۔
کئی واقعات میں امریکہ کی تربیت یافتہ افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے یا تو ہتھیار ڈال دیے یا طالبان کی پیش قدمی سے بچنے کے لئے ان اضلاع سے نکل گئیں ، جبکہ بعض واقعات میں فوجی فرار ہو کر پاکستان، ایران اور تاجکستان پہنچ گئے۔
پاکستان میں اعلی سیکیورٹی عہدیداروں نے اس ہفتے اپنی پسِ پردہ بریفنگز میں اس امکان کو رد کر دیا کہ طالبان کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز بہتر تربیت یافتہ اور بہتر طور پر مسلح ہیں اور دفاع کی اہلیت رکھتے ہیں۔
کابل یہ کہتے ہوئے طالبان باغیوں کی کامیابیوں کے لئے اسلام آباد کو الزام دیتا ہے کہ مبینہ طور پر طالبان لیڈرز پاکستان میں پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔
تاہم، معید یوسف کا کہنا تھا کہ اگر افغان امراء نے اپنے طرزِ حکومت سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے ملک کو لوٹا ہے تو کم از کم اس کا اعتراف تو کریں۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا نہ صرف بد قسمتی بلکہ منافقانہ اور غیر مہذب بھی ہے۔ "
معید یو سف کہتے ہیں، "ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک ٹریلین ڈالرسے زیادہ افغانستان میں خرچ کئے گئے اور ان میں سے زیادہ تر فوج اور سیکیورٹی فورسز (ای این ڈی ایس ایف) کی تیاری پر صرف ہوا تو کیا اب پاکستان انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے کہہ رہا ہے۔ آخر اس بہتر طور پر تربیت یافتہ اور مسلح فوج کو ہوا کیا ہے؟"
انہوں نے کہا کہ "دوسرے فریق کے پاس زیادہ سے زیادہ بندوقیں، مارٹر اور راکٹ ہیں۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ کھربوں ڈالر کہاں گئے۔ آخر مغربی ممالک کو یہ سوال تو کرنا چاہئیے۔"
منگل کے روز افغانستان کے انسانی حقوق کے آزاد کمشن کی سربراہ، شہرزاد اکبر نے کہا کہ ان کے ملک کو درپیش گہرے ہوتے بحران کے لئے کابل قیادت بھی ذمے دار ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اگر ہماری اعلیٰ ترین قیادت گذشتہ بیس برس کے عرصے میں بد عنوانی کو مضبوط اور برداشت کرنے اور ملک کو لوٹنے میں مصروف نہ ہوتی تو کیا آج ہم اس مقام پر ہوتے؟
انہوں نے مزید لکھا کہ افغان سیاسی قیادت کی ناکامی پر بھی ہمیں اتنا ہی برہم ہونا چاہئیے جتنا کہ کسی اور بات پر۔
پاکستان یہ کہتا ہے کہ اس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں مکمل ہونے والے 2020 کے فوجیں واپس بلانے کے معاہدے کے لئے طالبان کو بات چیت پر آمادہ کیا تھا۔
امریکی عہدیدار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گذشتہ ستمبر میں طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان قطر میں امن مذاکرات کے لئے اسلام آباد نے سہولت فراہم کی گو کہ ان مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
منگل کے روز معید یوسف نے زور دے کر کہا کہ پر امن افغانستان، پاکستان کی سلامتی اور اقتصادی استحکام کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو اس کے معنی ہیں تنازعے میں توسیع، جس کے باعث عدم استحکام پاکستان میں در آئے گا؛ چنانچہ تنازعے کا طول پکڑنا پاکستان کے لئے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔
افغانستان میں امن کے لئے اسلام آباد کی کوششوں سے آگاہی رکھنے والے سیکیورٹی کے ایک سینئیر عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ باغی لیڈروں سے ملاقات کے لئے متعدد بار دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر گئے۔
اس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ باجوہ نے طالبان پر زور دیا کہ وہ فوجی مہم چھوڑ کر سیاسی حل تلاش کرنے پر توجہ دیں۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے افغانستان کے بھی کئی دورے کئے اور صدر غنی اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی تاکہ تعطل میں پڑے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
ان الزامات کے جواب میں کہ پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی چاہتا ہے، عہدیدار کا کہنا تھا، "افغانستان میں ہماری کوئی پسند یا ناپسند نہیں ہے۔ہم امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سخت کوشش کر رہے ہیں مگر کابل الجھن کا شکار ہے۔ ہم طالبان سے بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے لچک نہ دکھائی اور طاقت کے بل پر دوبارہ حکمرانی حاصل کی تو انہیں کوئی قبول نہیں کرے گا۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اور افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ، باغیوں پر پاکستان کا اثرو رسوخ ماند پڑتا جا رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر واشنگٹن نے دباؤ ڈالا تو کیا پاکستان اپنی سرزمین پر طالبان کے خلاف طاقت استعمال کرے گا، پاکستان میں سیکیورٹی کے سینئیر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے کیمپوں میں جہاں 40,000 کے قریب سویلین موجود ہیں، چھپے ہوئے باغی جنگجوؤں کے خلاف کوئی طاقت استعمال نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ''ہم کسی کو برہم نہیں کرنا چاہتے مگر ہم سب کو بتا رہے ہیں کہ ہم بہت کر چکے''۔
افغانستان میں مصالحت کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے جنہوں نے طالبان کے ساتھ تاریخی معاہدے کے مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ باغیوں کے ساتھ لڑائی میں افغان فورسز جو کر رہی ہیں وہ اس سے کہیں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔
وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ہم افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کر رہے ہیں اور ہم نے مستقبل میں بھی ان فورسز کی مدد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
اگرچہ افغانستان نے پاکستان کے دعووں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا، تاہم بظاہر افغان عہدیدار یہ تسلیم کرنے پر تیار نظر نہیں آتے کہ سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی دراندازی رک گئی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے بھی اس بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان افغان تنازعے کے سیاسی حل کے لئے کافی کچھ کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے طالبان لیڈروں کی پاکستان میں موجودگی کے پیشِ نظر انہیں امن اور جتنا جلد ممکن ہو کسی سیاسی سمجھوتے پر لانے کے لئے پاکستان کا خصوصی کردار اور ذمے داری ہے۔ اور بین الاقوامی طور پر بھی اس کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان نے وہ سب کیا جو وہ کسی سیاسی سمجھوتے کے فروغ کے لئے کر سکتا تھا یا نہیں۔