ترکی کے تاریخی شہر قونیہ میں ممتاز صوفی بزرگ شاعر مولانا رومی کے عرس کی سالانہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ ترک خبر رساں ادارے اناطولو کے مطابق یہ بین الاقوامی تقریبات ہر سال 7 سے 17 دسمبر تک منائی جاتی ہیں۔
اس موقعے پر ترکی کے مواصلات کے ڈائریکٹوریٹ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں مولانا روم کی 746ویں برسی کی تقریبات کے موقعے پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے پیغام میں کہا، "ہم اپنی روایات پر عمل کرتے ہوئے، خوف اور مایوسی کے بغیر اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ اپنے مستقبل کی جانب رواں رہیں گے۔ ہم اپنے عظیم ثقافتی ورثے کی طاقت سے تمام رکاوٹوں پر قابو پا لیں گے۔"
ہر سال ہزاروں لوگ 13ویں صدی کے صوفی بزرگ شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ترک شہر قونیہ کا رخ کرتے ہیں اور ہفتے بھر عرس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
"شبِ عروس" یا اجتماع کی رات کی تقریبات میں مولیویہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس میں بہت سے درویش گھومتے ہوئے رقص کے دوران نعرے بلند کرتے ہیں۔
تقریبات کا آغاز تلاوتِ قرآن اور دعاء سے ہوتا ہے۔ درویشوں کا لباس بھی ایک خاص علامت کا حامل ہوتا ہے۔ سفید رنگ کے لبادے، سیاہ جبے اور سر کے لمبے صافے سب زندگی سے موت تک کے سفر کی علامتیں ہیں جو یہ درویش لے کر چلتے ہیں ۔ ایک ہاتھ فضا میں بلند اور دوسرا زمین کے رخ ۔۔۔اور پھر موسیقی اور قدموں پر گھومتے ہوئے یہ رقص ان پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔
تقریبات کا آغاز بھی دعا سے اور اختتام بھی دعا سے ہوتا ہے۔
مولانا رومی کا نام محمد اورلقب جلال الدین تھا۔ انہیں شہرت مولانا روم یا مولانا رومی کے لقب سے ملی۔
وہ 1207 میں بلخ خراسان میں پیدا ہوئے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔
روایات کے مطابق ان کا نسب والد کی جانب سے نو واسطوں سے مسلمانوں کے خلیفہ اول ابوبکر صدیق اور والدہ کی جانب سے خلیفہ چہارم علی ابن طالب سے جا ملتا ہے۔
مولانا رومی فارسی کے مشہور شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ مافیہ اور دیوانِ شمس تبریز جو مولانا ہی کا دیوان ہے، ان کی تصنیفات ہیں۔ مثنوی مولانا روم علم و ادب کا بیش بہا خزانہ ہے۔
مولانا روم اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذہب کے بہت بڑے عالم تھے لیکن آپ کی شہرت ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی اکابرین مختلف موضوعات کے لئے ان سے رجوع کرتے۔
مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انہیں اپنے پاس بلا لیا اور وہ قونیہ چلے گئے۔ باقی عمر وہیں بسر کی۔ 30 برس تک تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولانا رومی کا قول ہے:اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق جلال الدین رومی نے 3500 غزلیں اور 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ سب سے زیادہ مقبولیت ان کی مثنوی کو ملی۔
بر صغیر کے ممتاز شاعر علامہ اقبال مولانا رومی سے بے حد متاثر تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ مولانا کشف و وجدان کے ذریعے وہ عرفان حاصل کر چکے تھے جو محبوبِ حقیقی کے تمام احکامات کی پیروی کرنے والے کو ملتا ہے اور یہ ایک صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام بھی ہے۔
مولانا رومی کے دو اشعار کو علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں سمویا ہے کہ:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
1920 کے عشرے کے اوائل میں ترکی میں سیکولر ریپبلک کے قیام کے بعد اگرچہ مذہب کا زور نہیں رہا تھا مگر درویشوں کی روایات کو ثقافتی ورثے کا درجہ دے دیا گیا۔
2005 میں مولانا رومی کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2007 کو رومی کا بین الاقوامی سال قرار دیا اور ایک تمغہ بھی جاری کیا۔ اور تب سے صوفی درویشوں کی روایت کو انسانیت کے ایک لازوال ورثےکا درجہ حاصل ہے۔
(اس مضمون میں معلومات اے پی اور آزاد دائرۃ المعارف سے لی گئی ہیں)