وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے لیے یہ صحیح وقت ہے کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کی شدت میں کمی کر دے،تاہم اسرائیلی لیڈر جنگجو گروپ کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔اتوار کو اس جنگ کے 100ویں روز امریکہ کی جانب سے اس موقف کے اظہار سے قریبی اتحادیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کا اظہار ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں اتوار ہی کے روز اسرائیلی جنگی طیاروں نے،شمالی اسرائیل میں حزب اللہ کے میزائل حملے کے جواب میں، لبنان میں اہداف پر حملے کیے۔ حزب اللہ کے اس حملے میں دو اسرائیلی شہری، ایک ضعیف خاتون اور ان کا بیٹا مارے گئے تھے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے 100 دن؛ اسرائیل کا حماس کے خاتمے تک لڑائی جاری رکھنے کا اعلانان حملوں اور جوابی حملوں سے اس تشویش کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ غزہ کا تشدد پورے خطے میں جنگ پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں جس میں بارہ سو کے لگ بھگ لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر شہری تھے اور 240 کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا، اسرائیل نے غزہ میں فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ جس میں کوئی 24 ہزار فلسطینی اب تک مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 60 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں جب کہ غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے، غزہ کے 23 لاکھ شہریوں میں سے کوئی 85 فیصد بے گھر ہو چکے ہیں اور بیشتر آبادی بھوک کا شکار ہے۔
سی بی ایس کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ اس بارے میں اسرائیل سے بات کر رہا ہے کہ غزہ میں کارروائیوں کی شدت میں کمی کر دے۔
پروگرام فیس دی نیشن میں انہوں نے کہا کہ اس کام کے لیے یہ صحیح وقت ہے۔ اور یہ کرنے کے لیے ہم ان سے بات کر رہے ہیں۔
اس جنگ سے پورے خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، اسرائیل کا لبنان کے جنگجو حزب اللہ گروپ سے تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں شام اور عراق میں امریکی ہدفوں پر حملے کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یمن کے حوثی باغی بین الاقوامی جہاز رانی کو ہدف بنارہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے امریکہ کو فضائی حملے کرنے پڑے۔
حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی۔
ادھر جنگ کے ایک سو دن پورے ہونے پر اتوار کے روز یورپ اور مشرق وسطیٰ میں لاکھوں لوگ مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان متضاد مظاہروں میں ایک جانب تو وہ مظاہرین تھے جو اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اور دوسری جانب وہ تھے جو غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اتوار کو دیر گئے حماس نے ایک مختصر ویڈیو جاری کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ تین اسرائیلی یر غمال جن کو شاید زبردستی بولنے پر مجبور کیا گیا تھا، اپنی حکومت سے جنگ ختم کرنے کی درخواست کر رہے تھے تاکہ وہ گھر آ سکیں۔
ادھر اسرائیل میں یرغمالوں کے حامیوں اور ان کے اہل خاندان نے تل ابیب میں اپنا چوبیس گھنٹے کا احتجاج ختم کیا۔ جس کا مقصد حکومت سے مطالبہ کرنا تھا کہ وہ یرغمالوں کو واپس لائے۔
SEE ALSO: تل ابیب میں دو مربوط فلسطینی حملے، ایک خاتون ہلاک 12 زخمیاسرائیل پر غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن وہ اب تک امریکی سفارتی اور فوجی مدد و حمایت کی پناہ میں ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ جنگ بندی حماس کی فتح کے مترادف ہو گی۔
لیکن اب امریکیوں کے ساتھ اختلافات ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے خطے کے دورے میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے شہریوں کی ہلاکتیں کم کرنے اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھانے کے لیے، جس کی وہاں شدید ضرورت ہے۔ اسرائیل پر مزید اقدامات کے اپنے موقف کا اعادہ کیا۔
مغربی کنارے کے علاقے میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے جہاں صحت سے متعلق فلسطینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے کوئی ساڑھے تین سو فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ شہریوں کی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس ہے جس کے جنگجو شہری عمارتوں کا استعمال کرتے ہیں اور گنجان آبادی والے شہری علاقوں سے حملے کرتے ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔