پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے متعدد واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن ماضی کے برعکس دہشت گرد حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے بجائے مختلف ناموں سے موجود چھوٹے گروپس قبول کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ نومبر میں دہشت گردی کے واقعات میں جہاں 34 فی صد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر دہشت گردی کے 63 واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 37 اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری مختلف ناموں سے چھوٹے چھوٹے گروپ قبول کر رہے ہیں جن میں لشکر خراسان، تحریک جہاد پاکستان کے علاوہ عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کا گروپ بھی شامل ہے۔
چھبیس نومبر 2023 کو بنوں کے علاقے بکاخیل میں خودکش حملے میں ملوث دہشت گرد کا تعلق بھی عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کے گروہ سے بتایا گیا ہے۔
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق حملہ آور افغانستان کا شہری تھا اور حملے میں دوشہری ہلاک جب کہ تین سیکیورٹی اہلکاروں سمیت دس افراد زخمی ہوئے تھے۔
یہ اس جیسا کوئی پہلا حملہ نہیں، اس سے پہلے بھی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں برا ہِ راست پاکستانی عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجو ملوث پائے گئے ہیں۔ پندرہ اگست 2021ء کو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں اس گروہ کی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بنوں میں ہونے والا حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کی جانب سے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر جنگجوؤں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے ثبوت کابل کو فراہم کیے ہیں جب کہ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ امن و امان کی اندرونی صورتِ حال کو خود سنبھالے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے الزامات کی کئ بار تردید کر چکے ہیں۔
رواں برس اگست میں ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ایک طویل جنگ سے گزرنے کے بعد امن کی طرف آیا ہے اور کابل حکومت کسی بھی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرتی البتہ گزشتہ کچھ عرصے میں داعش کے اٹھارہ اراکین افغانستان میں مارے گئے جن کا تعلق پاکستان سے تھا لیکن افغان طالبان نے پاکستان پر اس طرح کا الزام نہیں لگایا۔
حکومتِ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان الزامات پر مبنی بیانات کے تبادلے کے دوران حافظ گل بہادر گروپ کے سفیان کاروان نے اکتیس اگست کو سیکیورٹی فورسز پرخودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
حافظ گل بہادر گروپ کا نیٹ ورک پاکستان میں کتنا مضبوط ہے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی سے اُن کے کیسے روابط ہیں یہ جاننے کے لیے پہلے اس گروپ کے کمانڈر حافظ گل بہادر کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
حافظ گل بہادر کون ہیں؟
حافظ گل بہادر کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل سے ہے۔ انہوں نے دینی تعلیم تحصیل میر علی کے مدرسے دارالعلوم نظامیہ عیدک سے حاصل کی جس کے بعد وہ جمعیت علماء اسلام کی طلبہ تنظیم کے فنانس سیکریٹر اور بعدازاں اس کے پریس سیکریٹری رہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ناصر داوڑ نے دوران رپورٹنگ حافظ گل بہادر کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کے بقول گل بہادر نہ صرف نظریاتی طور پر افغان طالبان سے متاثر تھے بلکہ وہ افغان طالبان کے قریب بھی تھے۔
" حافظ گل بہادر نے شمالی اتحاد کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑائی میں کسی حد تک حصہ بھی لیا۔ لیکن جب گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ افغانستان آیا تو اس حوالے سے ان کی جہادی مصروفیات بڑھ گئیں۔ شمالی وزیرستان میں اہم افغان طالبان رہنماؤں کی مدد اور ملاقاتوں میں وہ پیش پیش رہے۔"
SEE ALSO: سی پیک کے 10 برس؛ شدت پسند تنظیمیں جو چین اور پاکستان کے لیے دردِ سر بنی رہیںناصر داوڑ کے مطابق شمالی وزیرستان میں گل بہادر کے رابطے حقانی نیٹ ورک اور بعد ازاں القاعدہ کے ساتھ قائم ہوئے اور جب دہشت گردی کے خلاف شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کا آغاز ہوا، اس وقت انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں لڑنے کے لیے 'شوری مجاہدین وزیرستان' کے نام سے اپناالگ گروپ بنایا۔
افغانستان کے لیے دتہ خیل میں ان کے گروپ کے زیراہتمام ایک خودکش ٹریننگ کیمپ بھی چلتا رہا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈرون حملے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں ہوئے اور ہلاک ہونے والے غیرملکی جنگجوؤں کی تدفین بھی دتہ خیل میں ہی ہوتی رہی۔
ڈرون حملوں کے لیے اہداف کی نشاندہی کرنے والوں کی ٹارگٹڈ کلنگ کے لیے "تورہ شپہ" یعنی کالی رات ڈیتھ اسکواڈ کے لیے سب سے زیادہ افرادی قوت حافظ گل بہادر گروپ نے فراہم کی تھی۔ اس اسکواڈ میں مختلف تنظیموں کے جنگجو شامل تھے۔
حافظ گل بہادر اور تحریک طالبان پاکستان
کمانڈرحافظ گل بہادر کے اہداف افغانستان میں تھے جب کہ ٹی ٹی پی زیادہ تر پاکستان میں فعال رہی اس لیے کمانڈر حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطے بحال رکھے لیکن باضابطہ شمولیت سے گریز کیا۔
اُس وقت ان معاملات کو قریب سے دیکھنے والے معروف تجزیہ کار رفعت اللہ اورکزئی کا ماننا ہے کہ حافظ گل بہادر پاکستان کی ریاست کو براہِ راست چیلنج کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ گل بہادر مختلف دھڑوں کے اتحاد مجاہدین کا حصّہ رہے ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی تصور یہ تھا کہ وہ حکومت نواز کمانڈر ہیں۔ جب ٹی ٹی پی بنی تو اس وقت انہوں نے اپنی علیحدہ شناخت کو ترجیح دی اور ان کی یہ حکمت عملی کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔
حکومتی حمایت سے مخالفت کیوں؟
کمانڈر حافظ گل بہادر کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ماضی میں شمالی وزیرستان انتظامیہ نے اس گروپ کے ساتھ ستمبر 2006ء میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ وزیرستان میں ہونے والے معاہدوں میں خصوصی طور پر حکومت کی جانب سے شق ڈالی جاتی کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان جنگجو نہیں بھیجے جائیں گے۔ لیکن ان معاہدوں کی پاسداری مشکل سے ہوتی رہی ۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں موجود تمام گروہوں کے خلاف بلاتفریق 'آپریشن ضربِ عضب' کا آغاز کیا تو دیگر عسکریت پسند گروہوں کی طرح حافظ گل بہادر نے بھی پاک افغان سرحد پار کرکے افغانستان کے صوبہ خوست میں پناہ لی۔
حافظ گل بہادر گروپ افغانستان میں رہتے ہوئے بھی خاصا متحرک رہا۔ عمائدین شمالی وزیرستان نے افغان صوبہ پکتیکا کے علاقے لمن میں حافظ گل بہادر سے کئی ملاقاتیں کی۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا : پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟صحافی ناصر داوڑ کے مطابق افغانستان میں رہتے ہوئے حافظ گل بہادر کے کالعدم ٹی ٹی پی سے بھی رابطے مزید مضبوط ہوئے اور جب ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کی بات چلی تو حافظ گل بہادر سے بھی مذاکرات ہوئے جو ناکامی سے دوچار ہوئے۔
ناصر داوڑ کے مطابق حافظ گل بہادر شدید مخالفت کی طرف چلے گئے تھے جس کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ رفاقتوں اور طویل عرصے تک اس خطے میں لڑنے کا تجربہ رکھنے والے کمانڈر حافظ گل بہادر کے گروپ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیرستان اور افغان جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد رکھنے کے باعث حافظ گل بہادر گروپ کے حملوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے اور پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پر اس گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ مزید بڑھے گا۔
حافظ گل بہادر گروپ میں کون کون ہیں؟
حافظ گل بہادر کو عموماً حقانی نیٹ ورک کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر اس لیے بھی ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے مراکز شمالی وزیرستان میں تھے جہاں حافظ گل بہادر نے ان کا ہر سطح پر ساتھ دیا تھا۔
حافظ گل بہادر چوں کہ وزیر قبیلے کی ذیلی شاخ مداخیل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے پاک افغان سرحد پر واقع اسی قبیلے کے زیادہ تر جنگجو اس گروپ کا حصہ ہیں۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ مارچ 2011ء میں کرومائٹ کی ملکیت کے حوالے سے منعقدہ جرگے پر ڈرون حملے میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس جرگے میں کمانڈر حافظ گل بہادر کی موجودگی کی اطلاع تھی تاہم وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔
سال 2014ء کے بعد افغانستان میں قیام کے دوران افغان جنگجوؤں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد حافظ گل بہادر گروپ میں شامل ہوئی۔ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے صدرحیات، داوڑ قبیلے سے تعلق رکھنے والے مفتی صادق نور اور صدیق اللہ ان کی مرکزی شوریٰ میں شامل ہیں۔