بھارت کی ریاست اتر پردیش (یو پی) کی باندہ جیل سے جب رواں ماہ چھ اپریل کو 38 پولیس اہلکاروں کا آٹھ گاڑیوں پر مشتمل قافلہ گینگسٹر اور سیاست دان مختار انصاری کو پنجاب کی روپ نگر جیل سے لینے کے لیے روانہ ہوا۔ تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی جرائم پیشہ شخص کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے نہیں، بلکہ کسی وی وی آئی پی کے استقبال کے لیے جا رہے ہوں۔
اس قافلے میں کئی اعلیٰ پولیس افسران کے علاوہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس پراونشل آرمڈ فورس (پی اے سی) کی ایک کمپنی، ایک ایمبولینس اور ایک اینٹی رائٹس وہیکل بھی شامل تھی۔
یہ قافلہ 882 کلومیٹر کا سفر 15 گھنٹے میں طے کرکے روپ نگر جیل پہنچا۔ جہاں کئی گھنٹوں کی ضابطے کی کارروائی کے بعد مختار انصاری کو اس ٹیم کے حوالے کیا گیا۔
پولیس ٹیم مختار انصاری کو لے کر باندہ جیل کے لیے روانہ ہوئی جس راستے پر یہ ٹیم جانے والی تھی، اس پر زبردست حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
مختار انصاری کو پنجاب سے یو پی منتقل کرنے کے سلسلے میں یو پی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے 26 مارچ کو مختار انصاری کو یو پی منتقل کرنے کا حکم سنایا تھا.
باندہ جیل چھاونی میں تبدیل
خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق مختار انصاری کو باندہ جیل کی بیرک نمبر 15 میں رکھا گیا ہے۔ چوں کہ وہ ایک ہائی پروفائل قیدی ہیں اس لیے جیل انتظامیہ کی درخواست پر جیل میں اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے اور تین سیکیورٹی جوان 24 گھنٹے ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق جیل میں ہر جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور جیل کے داخلی دروازے کو، جو کہ عموماً کھلا رہتا تھا، اب بند کر دیا گیا ہے۔ صرف جیل کا عملہ مکمل جانچ کے بعد وہاں سے گزر سکے گا۔
جیل کے باہر بڑے بڑے ٹاور نصب کر دیے گئے ہیں۔ جن پر سیکیورٹی جوان تعینات ہیں۔ جو ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
مختار انصاری بھتہ وصولی کے ایک معاملے میں جنوری 2019 سے پنجاب کی روپ نگر جیل میں قید تھے۔ اس وقت سے اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت انہیں یو پی لانے کی کوشش کر رہی تھی۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت کے بعد عدالت نے رواں سال 26 مارچ کو مختار انصاری کو باندہ جیل میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یو پی کی حکومت کا الزام تھا کہ پنجاب کی کانگریس حکومت انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
اترپردیش پولیس کے مطابق مختار انصاری پر مختلف ریاستوں میں قتل، اقدام قتل، اغوا، فساد بھڑکانے، بھتہ وصولی اور اسلحہ رکھنے کے الزام میں 52 مقدمات درج ہیں جن میں سے کم از کم 15 مقدمات میں عدالتی کارروائی چل رہی ہے اور کچھ معاملات میں ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ مقدمات میں رہا ہو چکے ہیں۔
اترپردیش کی ایک مقامی عدالت نے غیر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کے ایک معاملے میں انہیں جمعے کو ہی ضمانت دی ہے۔
مختار کے اہلِ خانہ کے خدشات
مختار انصاری کے اہل خانہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ باندہ جیل میں مختار کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ان کی اہلیہ افشاں انصاری نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے گزارش کی ہے کہ وہ ریاستی حکومت، پولیس اور جیل انتظامیہ کو ہدایت کرے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مختار انصاری کے خلاف غیر جانب دارانہ اور شفاف عدالتی کارروائی ہو گی۔ اور انہیں کسی انکاؤنٹر میں ہلاک نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے انکاؤنٹر میں ہلاکت کا اندیشہ ریاستی بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ کے اس بیان کی روشنی میں ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پولیس مختار انصاری کو پنجاب سے لا رہی ہے۔ کیا پتا کہیں راستے میں گاڑی پلٹ جائے۔
یاد رہے کہ کانپور کے ایک گینگسٹر وکاس دوبے کو، جس نے آٹھ پولیس اہلکاروں کو قتل کیا تھا، مدھیہ پردیش سے لکھنؤ لاتے ہوئے کان پور کے نزدیک اس کی گاڑی الٹ گئی تھی۔
پولیس نے بتایا تھا کہ گاڑی پلٹنے کے بعد وہ ایک پولیس اہلکار کا ہتھیار چھین کر بھاگ رہے تھے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
مختار انصاری کی مقبولیت
مختار انصاری بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے موؤ کے علاقے سے رکن اسمبلی ہیں اور وہ پانچ بار 1996، 2002، 2007 ، 2012 اور 2017 میں موؤ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پہلی بار بی ایس پی کے ٹکٹ پر، دوسری بار آزاد، تیسری بار قومی ایکتا دل سے، چوتھی بار سماج وادی پارٹی کی حمایت میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے اور آخر میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔
بنارس کے ایک ہندی روزنامہ ‘دینک جاگرن’ سے وابستہ سینئر صحافی اور سماجی کارکن عتیق انصاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مختار انصاری کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں لیکن وہ ایک مقبول سیاست دان بھی ہیں۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ آخری تین انتخابات انہوں نے جیل کے اندر رہ کر جیتے۔ ان کے مطابق مختار انصاری کو بہت سے لوگ ‘رابن ہڈ’ کہتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا ان کے بیٹوں، اہلِ خانہ اور دوستوں نے مہم چلائی جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔
موؤ کے سابق چیئرمین ارشد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مختار انصاری نے اپنے حلقے میں کوئی بہت زیادہ کام نہیں کیے لیکن وہ غریبوں، مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی مقبولیت ہے اور اسی وجہ سے ہندو مسلمان سب ان کو ووٹ دیتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا الیکشن لڑنے کا اپنا طریقہ ہے۔ پیسے کی کمی نہیں ہے۔ جس پارٹی میں امکانات دیکھتے ہیں، اس میں شامل ہو جاتے ہیں یا اس سے حمایت لے لیتے ہیں۔
مختار انصاری کا خاندانی پس منظر
اٹھاون سالہ مختار انصاری اترپردیش کے غازی پور میں یوسف پور، محمد آباد کے رہائشی ہیں۔
غازی پور کے ایک رہائشی محمد فیروز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مختار انصاری کا خاندان ’مجاہدینِ آزادی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان میں کم از کم 22 افراد ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
مختار انصاری کے دادا، جن کا نام بھی مختار انصاری تھا، ایک معروف معالج تھے جب کہ انہوں نے آزادی کی جنگ بھی لڑی تھی۔ جنگ بلقان کے موقع پر وہ ایک طبی مشن لے کر ترکی بھی گئے تھے۔
وہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے دو بار صدر رہ چکے تھے۔ وہ گاندھی جی کے قافلے میں بھی شامل رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے کیمپس میں ان کے نام سے ’انصاری آڈیٹوریم‘ بھی موجود ہے۔
مختار انصاری کے نانا بریگیڈیئر محمد عثمان 1947 کی جنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔ انہیں ’نوشہرہ کا شیر‘ کا خطاب ملا تھا۔ انہیں حکومت کی جانب سے اعلیٰ فوجی اعزاز ‘مہاویر چکر’ دیا گیا تھا۔
میجر جنرل وی کے سنگھ نے اپنی کتاب میں آٹھ جنرلوں کا ذکر کیا ہے جن میں بریگیڈیئر عثمان بھی شامل ہیں۔
ان کی قبر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں ڈاکٹر مختار انصاری کی قبر کے نزدیک ہے جسے گزشتہ دنوں بعض شرپسندوں نے تباہ کر دیا تھا۔ فوج کی جانب سے اس کی مرمت کرائی گئی تھی۔
مختار انصاری کے والد سبحان اللہ انصاری نے بھی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ ان کے بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری، یوسف پور محمد آباد کے اسمبلی حلقے سے کئی بار الیکشن جیت چکے ہیں۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ وہ بابا کے نام سے مشہور ہیں۔
دوسرے بڑے بھائی افضال انصاری بھی اسی حلقے سے پانچ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔
افضال انصاری 2004 میں غازی پور پارلیمانی حلقے سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ 2019 میں انہیں بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی ملی تھی۔
وہ دو بار بھارت کے نائب صدر رہ چکے سابق سفارت کار حامد انصاری، مختار انصاری کے چچا ہیں۔
جرائم کی دنیا میں داخلہ
عتیق انصاری کے مطابق اس خاندان کو ’انصاری آف یوسف پور‘ کہا جاتا ہے۔ اس خاندان پر متعدد مصنفوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ اس خاندان کو پورے مشرقی اترپردیش میں جسے ’پوروانچل‘ کہا جاتا ہے، بڑی مقبولیت حاصل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مختار انصاری جرائم پیشہ نہیں تھے۔ وہ اتفاقیہ طور پر اس جرم کی دنیا میں آ گئے تھے۔
ان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کرشنا نند رائے کے قتل کا الزام ہے۔
رائے پہلے ان ہی کے ساتھ تھے۔ اختلافات کے بعد وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
سیاسی انتقام کے تحت کارروائی کا الزام
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اترپردیش کی حکومت سیاسی مقاصد کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ اس کے سامنے 2022 کا اسمبلی الیکشن ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ہندوؤں کے مسیحا ہیں۔
عتیق انصاری کہتے ہیں کہ اس وقت نہ صرف اترپردیش بلکہ پورے ملک میں ہندوؤں کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ مختار انصاری کو ایک جیل سے دوسری جیل منتقل کرنے کا کام کوئی بڑا کام نہیں تھا لیکن اس کی بہت تشہیر کی گئی اور تقریباً تمام نیوز چینلوں سے رننگ کمنٹری ہوتی رہی۔
ان کے مطابق اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ دہلی میں نریندر مودی ہندو مرد آہن ہیں تو یو پی میں یوگی ہیں۔
ارشد جمال اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں موؤ میں مختار انصاری کی کئی عمارتوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔
ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ ایسے کئی لوگوں کی عمارتیں بھی توڑی گئی ہیں جن کا مختار سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں ایک ’پیرس پلازہ‘ بھی ہے۔
رپورٹس کے مطابق موؤ میں مختار انصاری کے ایک شریک تجارت عیسیٰ خان کے پیرس پلازہ ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔
غازی پور اور لکھنؤ میں بھی کئی مکانات توڑے گئے ہیں۔ لیکن اس وقت ایک بڑا تنازع پیدا ہو گیا تھا جب گزشتہ سال غازی پور میں شمس اسپتال کو بھی منہدم کر دیا گیا۔ حالانکہ وہ کرونا اسپتال تھا۔
غیر مسلم گینگٹسرز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
لکھنؤ کے ایک سینئر صحافی آدرش پرکاش کے مطابق وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ ہندوؤں کے چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے کارروائی کرتے رہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے حال ہی میں ایک انگریزی روزنامے ’انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے گائے ذبح کے الزام میں 41 مسلمانوں کے خلاف خطرناک قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) لگا دیا تھا۔ لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے ان میں سے 30 افراد پر سے اس دفعہ کو کالعدم کر دیا تھا۔ باقی 11 میں سے ایک کو چھوڑ کر سب کو ضمانت مل گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست میں بہت سے غیر مسلم گینگسٹرز بھی ہیں۔ لیکن ان کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں ہوتی جیسی کہ مختار انصاری کے خلاف ہو رہی ہے۔
ان کے بقول خود وزیرِ اعلیٰ یوگی کے خلاف متعدد مقدمات درج تھے جنہیں اقتدار میں آتے ہی انہوں نے ایک سرکاری آرڈر سے ختم کر دیا۔
پولیس کے کردار پر سوال
مختار انصاری کے علاقے کے سینئر آئی پی ایس اور ریاست چھتیس گڑھ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محمد وزیر انصاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پولیس کارروائیوں کے سلسلے میں کہا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ پولیس کا محکمہ آئین و قانون کے مطابق کام نہ کرکے برسرِ اقتدار جماعت کے سیاسی نظریات کے تحت کام کرنے لگا ہے۔
وزیر انصاری پولیس کارروائیوں کی روشنی میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اس حکومت میں ایک مخصوص فرقے کے لوگ اور دلت، قبائلی اور کمزور طبقات کے لوگ پریشان ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت ریاست میں جرائم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور نظم و نسق تباہ ہو گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم بہت بڑھ گئے ہیں اور اقلیتوں کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس کو قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے نہ کہ کسی جماعت کے سیاسی نظریات کے تحت۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مختار انصاری کے خاندان کے بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے تھے۔ لہٰذا ان کی جائیداد کو حکومت نے اینیمی پراپرٹی یعنی ’دشمن کی املاک‘ قرار دے کر ضبط کر لیا ہے۔