پاکستانی نژاد برطانوی اداکار رز احمد کو ریکارڈز بنانے کا بہت شوق ہے، چاہے وہ میوزیکل نوعیت کے ہوں یا پھر ریکارڈ ساز نوعیت کے۔ حال ہی میں فلم 'ساؤنڈ آف میٹل' میں بہترین اداکاری پر انہیں اکیڈمی ایوارڈ نے بہترین اداکار کی کیٹیگری میں نامزد کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے شوبز ایوارڈز کی تاریخ میں جگہ بنالی ہے۔
رز احمد کو پہلی بار کسی انٹرنیشنل ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل وہ کئی بار اپنی لاجواب ادکاری کی وجہ سے برٹش آسکرز 'بافٹا' ایوارڈز، ٹیلی ویژن کے سب سے بڑے ایوارڈز 'ایمی' اور 'گولڈن گلوب' کے لیے بھی نامزدگی حاصل کر چکے ہیں اور متعدد بار تو ٹرافی بھی جیت چکے ہیں۔
لیکن اس بار بات ذرا مختلف ہے۔ اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین اداکار نامزد ہونے والے رز احمد آسکرز کی 93 سالہ تاریخ میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے مسلمان اداکار ہیں۔
وہ اس مقام پر پہنچنے والے پہلے پاکستانی نژاد برطانوی بھی ہیں اور اسی وجہ سے ہر کوئی ان کے اس سنگ میل پر خوش ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی مسلمان اداکار اکیڈمی ایوارڈز کی سب سے اہم کیٹیگری کا حصہ بنا ہو۔ اس سے قبل 2017 میں سیاہ فام امریکی اداکار مہرشالا علی نے 'مون لائٹ' کے لیے بہترین معاون اداکار کا آسکر جیت کر تاریخ رقم کی تھی۔
مہرشالا علی آسکر جیتنے والے پہلے مسلمان اداکار تھے لیکن رز احمد ان سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گئے اور بہترین اداکار کیٹیگری میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: آسکرز کے لیے نامزدگیوں کا اعلان، فلم 'منک' سرِفہرستاس سے پہلے وہ ایمی ایوارڈز میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں، جہاں 'دا نائٹ آف' میں شاندار اداکاری پر انہیں ساتھی اداکار جان ٹرٹرو، لیجنڈری اداکار رابرٹ ڈی نیرو اور انگلش جائنٹس جیفری رش، ایون مک گریگر اور بینیڈکٹ کمبر بیچ کی موجودگی کے باوجود بہترین اداکار قرار دیا گیا تھا۔
وہاں بھی ان سے پہلے کوئی مسلمان اور جنوبی ایشیائی اداکار بہترین ایکٹر کا ایوارڈ نہیں جیت سکا تھا۔ 'دی گڈ وائف' میں کلندا شرما کا کردار ادا کرنے والی آرچی پنجابی بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں، لیکن رز نے سب سے بڑا ایوارڈ جیت کر یہ ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا تھا۔
رز احمد کون ہیں؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ رز احمد کی آسکرز میں نامزدگی پر جہاں پاکستان میں ان کے مداح اور خاندان والے خوشیاں منا رہے ہیں وہیں بھارتی بھی کم خوش نہیں۔
مشہور صحافی عصیم چھابڑا نے سب سے پہلے رز احمد کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی۔
جس کے بعد بارڈر کے اس پار کے کئی افراد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر رز احمد کی تعریف کی۔ لیکن 'دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ' میں ان کی والدہ کا کردار ادا کرنے والی بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کا کہنا تھا کہ رز احمد کو ان کی جاندار پرفارمنس پر نامزدگی ملی، مسلمان ہونے پر نہیں، اور مذہب کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے۔
شاید رز احمد کی کامیابی پر بھارت میں بھی لوگ اس لیے خوش ہو رہے ہیں کیوں کہ ایک تو وہ برطانیہ میں پلے بڑھے اور وہاں کے 'دیسی' لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ دوسرا ان کے والدین، الہ باد ہائی کورٹ کے پہلے ہندوستانی چیف جسٹس سر شاہ محمد سلیمان کے خاندان سے ہیں، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان کے کئی افراد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے تھے۔ جہاں رز کے والدین نے کراچی، اور باقی خاندان نے لاہور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
کئی پاکستانیوں کی طرح رز احمد کے والدین بھی ستر کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے جہاں یکم دسمبر 1982 کو لندن میں رضوان احمد کی پیدائش ہوئی۔
رضوان احمد سے رز احمد بننے والے اداکار نے کریئر کا آغاز 2006 میں بحیثیت رز ایم سی کیا اور بعد میں بھی طبع آزمائی کی، جہاں ان کا شمار اب دنیا کے کامیاب ترین اداکاروں میں ہوتا ہے۔
رز احمد کو لاہور میں فلم شوٹ نہ کرنے کا افسوس ہے
سن 2012 میں جب رز احمد کی فلم' دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ ' کی تشہیر ہو رہی تھی تو میری بھی ان سے اسکائپ پر گفتگو ہوئی۔ جس میں انہوں نے اپنے بارے میں تو بتایا ہی، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے خاندان کے بارے میں بھی تفصیلات بتائیں۔
رز احمد کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے محسن حامد کا ناول 'دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ' پڑھا تھا، تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آگے جا کر اس کا مرکزی کردار وہ ادا کریں گے۔
رز کے بقول، وہ خوش تھے کہ فلم کی شوٹنگ کے لیے لاہور جائیں گے جہاں انہوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کا کافی وقت گزارا۔ لیکن انشورنس کمپنی کے منع کرنے کے بعد انہوں نے فلم کی شوٹنگ دہلی میں کی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ گوانتانامو بے میں تو شوٹ کرچکے ہیں، لیکن لاہور میں نہیں۔
SEE ALSO: رض احمد بہترین اداکار کا ایمی ایوارڈ جیتنے والے پہلے مسلمانرز احمد نے انٹرویو میں مزید بتایا تھا کہ دلی کے اینگلو ایریبیک کالج میں شوٹنگ ان کے لیے ایک یادگار لمحہ ثابت ہوا کیوں کہ ان کے والد کے ایک رشتہ دار اس کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے۔
انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا تھا کہ جلد حالات بہتر ہوں گے اور انٹرنیشنل فلموں کی شوٹنگ پاکستان میں بھی بغیر کسی ڈر و خوف کے ہو گی۔
رز احمد کے یادگار پراجیکٹس میں 'دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ'، 'نائٹ کرالر'، 'دی نائٹ آف' اور 'وینم' شامل ہیں۔
رز احمد کا شمار اس وقت ہالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ مقام سخت محنت اور جدوجہد سے حاصل کیا۔ انہوں نے گزشتہ دس بارہ برسں میں ہالی وڈ کے بڑے ناموں میٹ ڈیمن، ٹامی لی جونز(جیسن بورن)، ٹام ہارڈی (وینم)، جیک جیلن ہال، بل پیکسٹن، رینی روسو (نائٹ کرالر)، اینٹونیو بینڈیرس، مارک اسٹرونگ (بلیک گولڈ)، کیٹ ہڈسن، کیفر سدرلینڈ، لیو شرائبر(دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ) اور جان ٹرٹرو (دی نائٹ آف) کے ساتھ اسکرین شیئر کی اور اپنا لوہا منوایا۔
SEE ALSO: اہم شخصیات کی زندگی پر بننے والی بائیو پکس: ہالی وڈ کا کامیاب تجربہاس کے علاہ انہیں کئی بھارتی اور پاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔ جن میں آنجہانی بھارتی اداکار اوم پوری، عادل حسین، لیجنڈری اداکارہ شبانہ اعظمی (دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ)، فریدہ پنٹو (بلیک گولڈ)، پاکستانی اداکارہ میشا شفیع، سونیا جہان، (دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ) اور فلم اور ٹی وی کے نامور اداکار علی خان (موگل موگلی) شامل ہیں۔
ان کی مشہور فلموں میں 'دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ' کے ساتھ ساتھ 'نائٹ کرالر'، 'جیسن بورن'، 'روگ ون'، 'وینم'، اور 'موگل موگلی 'شامل ہیں جب کہ ٹی وی پر منی سیریز 'دی نائٹ آف' میں ان کی اداکاری کو سب ہی نے پسند کیا تھا۔
سن 2012 میں جب رز احمد کو بھارتی ہدایت کارہ میرا نائر نے اپنی فلم 'دی ری لکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ' میں کاسٹ کیا تو بہت سے لوگ اس فیصلے پر حیران تھے۔ کیوں کہ اس وقت رز احمد بحیثیت میوزیشن اور ریپر رز ایم سی زیادہ مشہور تھے۔
'دی نیوز' کو 2012 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں محسن حامد کا کہنا تھا کہ ان کے ناول پر فلم بنی اور وہ اسی پر خوش ہیں۔
ایک تقریب میں ہالی وڈ لیجنڈ رابرٹ ڈی نیرو کو جب پتا چلا کہ فلم میں چنگیز کا مرکزی کردار رز احمد ادا کر رہے ہیں تو انہوں نے نوجوان اداکار کی بہت تعریف کی جس پر محسن حامد کو بے حد فخر محسوس ہوا۔
اور آج وہی رز احمد اسی کیٹیگری میں نامزد ہوئے ہیں جس کا پانچ مرتبہ رابرٹ ڈی نیرو بھی حصہ رہ چکے ہی۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ 'ریجنگ بل' والے ڈی نیرو کی طرح ٹرافی حاصل کرتے ہیں یا پھر 'ٹیکسی ڈرائیور'، 'دی ڈئیر ہنٹر'، اوےکنگز' اور 'کیپ فیئر' والے باب کی طرح خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں۔