موہن داس کرم چند گاندھی کو بھارت میں بابائے قوم اور دنیا میں عدم تشدد کا پرچار کرنے والی شخصیت کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اسی احترام کی وجہ سے انہیں 'مہاتما' بھی کہا جاتا ہے۔
برصغیرِ کی آزادی کے چند ماہ بعد ہی 30 جنوری 1948 کو گاندھی کا قتل ہوا اور اسی دن کی مناسبت سے بھارت میں ہر سال 'شہید دیوس' یا 'یومِ شہدا' منایا جاتا ہے۔ اس دن بھارت میں مہاتما گاندھی اور برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن گزشتہ چند برسوں سے نہ صرف گاندھی کی شخصیت ان کے اپنے ہی ملک بھارت میں مختلف تنازعات کی زد میں ہے بلکہ دائیں بازوں کی ہندو قوم پرست جماعتیں ان کے قاتل کو ہیرو کے طور پر پیش کررہی ہیں۔
اس سال ہندو قوم پرست جماعت ہندو مہاسبھا نے گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے اور شریک مجرم کے طور پر سزا پانے والے نارائن آپٹے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ریاست مدھیہ پردیش میں 'گوڈسے آپٹے سمرتی دیوس' منایا۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے نام سے 'گوڈسے آپٹے بھارت رتن' ایوارڈ بھی جاری کیا۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق ہندو مہا سبھا نے مہاتما گاندھی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے مذہبی رہنما مہنت کالی چرن کو مذکورہ ایوارڈ دیا ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں گزشتہ ماہ ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں ہونے والے ایک اجتماع کے دوران دیا گیا۔
کالی چرن ںے اپنی تقریر میں گاندھی کے لیے نازیبا زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی تعریف بھی کی تھی۔ اس تقریر پر بعدازاں مہنت کالی چرن کے خلاف چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر میں مقدمات درج کیے گئے تھے اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
ہندو مہاسبھا کے نائب صدر جے ویر بھاردواج کے مطابق "30 جنوری 1948 کا دن ہم ناتھو رام گوڈسے اور نارائن آپٹے کی گرفتاری کے خلاف اپنی برہمی کے اظہار کےطور پر منا تے ہیں۔ اس دن مہاسبھا نے بھارت ماتا کی آرتی کی ہے اور پاکستان کو بھارت میں شامل کرکے 'اکھنڈ بھارت' بنانے کا عزم کیا ہے۔"
جے ویر بھارددواج نے الزام عائد کیا کہ مہاتما گاندھی 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے ذمے دار ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں ہندو قتل اور بے گھر ہوئے۔ ان کے بقول، "کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہندوستان گاندھی کے چرخے کی وجہ سے آزاد ہوا۔"
ہندومہاسبھا نے ناتھو رام گوڈسے کا ایک بڑا مجسمہ بنانے کا اعلان کررکھا ہے۔تنظیم نے اس مجسمے کو تیار کرنے کے لیے ریاست ہریانہ کے انبالہ سینٹرل جیل سے مٹی لانے کا اعلان کیا تھا۔ 1949 میں اس جیل میں ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی تھی۔
ہندو مہاسبھا کے رہنما اس سے پہلے بھی گاندھی کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے چکے ہیں۔ 2019 میں مہاسبھا کی رہنما پوجا شکون پانڈے نے گاندھی کی تصویر والے پتلے پر گولیاں چلانے کی ویڈیو جاری کی تھی۔
اس سے قبل ہندو مہاسبھا نے 2017 میں گوالیار میں ناتھو رام گوڈسے کا مجسمہ لگا کر اپنے دفتر کو گوڈسے کا 'مندر' بنانے کی کوشش کی تھی جس کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھی۔
ہندو مہاسبھا کون ہے؟
ہندو مہاسبھا کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کا آغاز 1907 میں ہوا تھا اور1915 میں یہ پورے ہندوستان میں قائم کی گئی تھی۔ یہ تنظیم ہندو سنگٹھن تحریک ہے جو ہندوتوا کی سیاست کرتی ہے۔
’ہندو مہا سبھا ان کلونیئل نارتھ انڈیا‘ کے مصنف پربھو باپو کے مطابق سنگٹھن سنسکرت کے دو الفاظ 'سم' اور 'گٹھن' سے مل کر بنا ہے اور اس کا مطلب کسی کو یکجا کرنا یا ایک 'منظم سوسائٹی اور اتحاد' کے ہیں۔ 1909 میں پنجاب ہندو سبھا کی لاہور میں ہونے والی کانفرنس میں اس کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد مختلف علاقوں میں منظم ہونے والی ہندو سبھاؤں یا تنظیموں کو متحد کرکے ہندوستانی تہذیب کے تحفظ کے لیے ہندوؤں میں 'قومی اتحاد' کو فروغ دینا تھا۔
SEE ALSO: گاندھی اور اسلام مخالف ہندو رہنما کی گرفتاری بھارت میں موضوع بحث کیوں؟ابتدا میں ہندو مہاسبھا کا نام 'سروا دیشک ہندو سبھا' تھا۔ مؤرخین کے مطابق برِ صغیر میں 1906 میں مسلم لیگ کے قیام اور 1909 میں برطانوی پارلیمنٹ کی متعارف کرائی گئی مارلے منٹو اصلاحات کے تحت ہندوؤں اور مسلمان نمائندوں کے جداگانہ انتخابات کا طریقہ نافذ ہونےکے بعد ہندوؤں کے لیے کسی پلیٹ فورم کی تشکیل کی کوشششیں بڑھ گئی تھیں۔
اس مقصد کے تحت یونائیٹڈ پرونسز (یوپی)، پنجاب، بہار سمیت مختلف صوبوں میں ہندو سبھائیں (تنظیمیں) بنائی گئیں۔
پربھو باپو کے مطابق سن 1921 میں آل انڈیا کانگریس کے ماڈل پر سروادیشک ہندو سبھا کو 'اکھیل ہندو مہاسبھا' میں تبدیل کردیا گیا تھا اور اس کے دستور میں ترمیم کرکے برطانیہ سے وفاداری کی شق نکال دی گئی اور اس کی جگہ ایک متحدہ اور خود مختار ہندوستان کی جدوجہد سے وابستگی شامل کی گئی۔
ہندو مہا سبھا پر ونائیک دامودرداس ساورکر کے افکار کا گہر اثر تھا۔ ساورکر گاندھی کے ہندو مسلم اتحاد سے متعلق خیالات اور سیکیولرزم کے مخالف تھے۔ساورکر کانگریس کے زیرِ قیادت ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے حامی نہیں رہے۔
گاندھی کا قتل اور مہاسبھا
مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے ناتھو رام گوڈسے کا تعلق ہندو مہا سبھا سے تھا۔ وہ ہندو مہاسبھا سے الگ ہونے والے کیشو ہیڈگوار کی قائم کردہ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے بھی منسلک رہے۔گوڈسے اور ان کے ساتھی گاندھی کو تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور فرقہ ورانہ فسادات میں ہندوؤں کی ہلاکتوں کا ذمے دار سمجھتے تھے اور اسے بنیاد بنا کر انہوں نے گاندھی کو نشانہ بنایا تھا۔
گاندھی کے قتل میں ہندو مہاسبھا کے ملوث ہونے پر ساورکر، گوڈسے اور تنظیم کے دیگر ارکان کے خلاف بھارت میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس کے باوجود یہ تنظیم بھارت کے مختلف حصوں میں فعال رہی۔
سال 2014 کے بعد تیزی آگئی
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی کامیابی کے بعد مہاسبھا نے اپنے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کیا اور اس کی جانب سے ناتھو رام گوڈسے کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں اضافہ بھی ہوا۔
بی جے پی کے رکن اسمبلی ساکشی مہاراج نے 2014 میں ناتھو رام گوڈسے کو محبِ وطن قرار دیا تھا۔ لیکن بعدازاں انہوں نے اپنے بیان پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
بھوپال شہر سے لوک سبھا کے لیے بی جے پی کی امیدوار پرگیا ٹھاکر نے 2019 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ناتھو رام گوڈسے کل بھی محبِ وطن تھے، ہیں اور رہیں گے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ گوڈسے کو دہشت گرد کہنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں اور انتخابات میں ایسے لوگوں کو جواب دے دیا جائے گا۔
پرگیا ٹھاکر نے بعد میں اپنے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی۔ اس بیان کے بعد شدید ردّ عمل سامنے آیا تھا اور وزیرِ اعظم مودی نے پرگیا ٹھاکر کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کبھی انہیں دل سے معاف نہیں کرسکیں گے۔
وزیرِ اعظم مودی اور بی جے پی نے پرگیا ٹھاکر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی لیکن ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ بھوپال سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کی رکن منتخب ہوئیں۔
واضح رہے کہ پرگیا ٹھاکر 2006 میں ممبئی کے قریب مالیگاؤں کے علاقے میں ایک مسجد اور قبرستان کے پاس ہونے والے دھماکوں کے ملزمان میں شامل ہیں اور وہ طبی بنیادوں پر ضمانت پر ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ برس فروری میں بی جے پی کی ایک اور رکن پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڑے نے گاندھی کی قیادت میں ہندوستان کی آزادی کے لیے چلنے والی تحریک کو 'ڈراما' قرار دیا تھا۔
ان کے اس بیان پر کانگریس سمیت دیگر سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور بی جے پی نے بھی انہیں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔ بعدازاں اننت کمار ہیگڑے نے یہ وضاحت کی تھی کہ انہوں نے اپنے بیان میں کسی شخصیت یا جماعت کا نام نہیں لیا تھا۔
بی جے پی ساکشی مہاراج، ٹھاکر پرگیا، اننت ہیگڑے اور اس کے علاوہ اپنے دیگر رہنماؤں کے گاندھی سے متعلق متنازع بیانات سے لاتعقلی کا اظہار کرتی آئی ہے۔
گاندھی کے قاتل پر ایک حالیہ کتاب 'دی میکنگ آف ناتھو رام گوڈسے' کے مصنف نے دھریندر کے جھا کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی گوڈسے کو ہیرو سمجھنے کی فکر پائی جاتی تھی لیکن اس کے اعلانیہ اظہار سے گریز کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ فکر بڑھ رہی ہے اور پہلے ہندوتوا کی سیاست کرنے والی تنظیمیں جو صرف حاشیے پر تھیں اب بھارت کے مرکزی دھارے میں آگئی ہیں۔
’الجزیرہ‘ کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ جب سے ہندوتوا کے حامی گروہوں کو حکومت کی مدد حاصل ہوئی ہے بعض خاص مقامات پر گوڈسے کے مندر بننا شروع ہوگئے ہیں۔ گوڈسے کے لیے حمایت کے اظہار میں 2014 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔