|
ویب ڈیسک—ایران میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ غزہ سے متعلق عالمی سفارت کاری میں ایک جارحانہ مؤقف رکھنے والی شخصیت تھے۔
کئی سفارت کاروں کے نزدیک اسماعیل ہنیہ حماس کے دیگر سخت گیر رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند تھے جنہیں حماس نے 2017 میں سیاسی ونگ کا سربراہ منتخب کیا تھا۔
غزہ میں سفری پابندیوں کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ ترکیہ اور قطر میں رہتے تھے اور غزہ جنگ کے بعد سے وہ مذاکرات کے سلسلے میں مصر بھی جاتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسماعیل ہنیہ نے نومبر میں تہران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات بھی کی تھی۔
'رائٹرز' کے مطابق تین سینئر حکام نے اس ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی سپریم لیڈر نے حماس کے رہنما پر واضح کر دیا تھا کہ تہران جنگ میں شامل نہیں ہو گا کیوں کہ اسرائیل پر حملے سے پہلے حماس نے ایران کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ البتہ حماس اس کی تردید کرتی ہے۔
اسماعیل ہنیہ منگل کو نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر اور نو منتخب صدر سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسماعیل ہنیہ تہران میں اپنی قیام گاہ پر موجود تھے جنہیں بدھ کی علی الصباح محافظ سمیت قتل کر دیا گیا ہے۔
فوری طور پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی جب کہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مہمان کے قتل کی تحقیقات کی جائیں گی۔
غزہ جنگ اور اسماعیل ہنیہ
حماس نے جب گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو اسماعیل ہنیہ نے قطر میں قائم الجزیرہ ٹیلی وژن پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آپ [عرب ممالک] کے [اسرائیل کے ساتھ] معاہدے اس تنازع کو ختم نہیں کر پائیں گے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس حملے کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی کارروائیوں میں مقامی صحت کے حکام کے مطابق 39 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور غزہ کی پٹی کا اکثر علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اب بھی لگ بھگ 100 یرغمال اسرائیلی حماس کی تحویل میں ہیں۔
SEE ALSO: حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ ایران میں قتل’رائٹرز‘ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ اسماعیل ہنیہ سات اکتوبر کے حملوں سے پیشگی واقف تھے یا نہیں۔ اس حملے کا منصوبہ غزہ میں حماس کی عسکری کونسل نے تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ سات اکتوبر کے حملے اور اس کی شدت پر حماس کے اپنے بعض رہنما بھی حیرت زدہ تھے۔
حماس کا کہنا ہے کہ رواں برس 10 اپریل کو ہنیہ کے تین بیٹے حازم، امیر اور محمد اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ حماس کے مطابق اس حملے میں ان کی تین پوتیاں اور ایک پوتا بھی نشانہ بنے تھے۔
اسرائیل کا اصرار تھا کہ ہنیہ کے بیٹے حماس کے جنگجوؤں میں شامل تھے تاہم اسماعیل ہنیہ اسے مسترد کرتے تھے۔
ان سے جب پوچھا گیا تھا کہ اس واقعے کے بعد کیا جنگ بندی کے مذاکرات متاثر ہوں گے تو ان کا کہنا تھا،’’فلسطینی عوام کا مفاد ہر شے سے بالاتر ہے۔‘‘
اسماعیل ہنیہ نے مزید کہا تھا،’’ہمارے سبھی لوگوں نے اور غزہ کے تمام خاندانوں نے اپنے بچوں کے خون کی شکل میں بھاری قیمت ادا کی ہے اور میں انہیں میں سے ایک ہوں۔‘‘
ہنیہ کے مطابق غزہ میں جاری جنگ میں ان کے خاندان کے 60 سے زیادہ افراد کی جانیں گئی ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے رواں برس مئی میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے دیگر تین رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی دراخوست کی تھی۔
آئی سی سی پراسیکیوٹر نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور ان کے ڈیفنس چیف کے وارنٹ جاری کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔
اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے جب کہ آئی سی سی کے اس فیصلے پر حماس نے اپنے ردعمل میں کہا تھا، ’’یہ متاثرہ فریق کو مجرم بنانے جیسا ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
حماس کی عسکری قوت بڑھانے میں کردار
اسماعیل ہنیہ 2017 میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ بنے تھے تاہم اس سے قبل حماس کی عسکری قوت بڑھانے میں بھی انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس کے لیے ایران کی حمایت اب کوئی راز نہیں ہے۔ ہنیہ ایک سنی مسلمان تھے لیکن انہوں نے شیعہ مسلم ایران سے تعلقات بڑھانے کی پالیسی اختیار کی تھی جس سے حماس کی عسکری صلاحیت بڑھانے میں مزید مدد ملی۔
جس دہائی میں ہنیہ غزہ میں حماس کے چوٹی کے لیڈر تھے تو اسرائیل کی جانب سے ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ وہ انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد کو اپنی تنظیم کا عسکری ونگ مضبوط کرنے کے لیے صرف کر رہے ہیں۔
حماس کے 1988 کے چارٹر میں اسرائیل کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی شق شامل ہے۔ تاہم اس وقت حماس کی قیادت نے 1967 میں اسرائیل کی جانب سے قبضہ کیے گئے علاقوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کے بدلے صلح کی دعوت دی تھی۔ لیکن اسرائیل اس پیشکش کو ایک چال قرار دیتا ہے۔
بعدازاں حماس نے 1990 اور 2000 کی دہائی کے دوران اسرائیل میں خود کُش بمبار بھیجے تھے۔
SEE ALSO: حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈر شکر کی لاش ملبے سے برآمد،گوتریس کی اسرائیلی حملوں کی مذمتسیاسی ونگ کی سربراہی کے دوران بھی اسماعیل ہنیہ اسرائیل کے خلاف عوامی سطح پر سخت زبان استعمال کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود عرب سفارت کار اور حکام اسماعیل ہنیہ کو سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے سخت گیر عسکریت پسند رہنماؤں کے مقابلے میں معتدل قرار دیتے تھے۔
ایک جانب حماس کی قیادت اسرائیل کو کہتی تھی کہ وہ ’غزہ کی ریت میں دھنس‘ جائیں گے۔ تاہم دوسری جانب ہنیہ اور ان کے پیش رو خالد مشعل خطے میں قطر کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ بندی پر مذاکرات کے لیے ملاقاتوں میں مصروف تھے۔
اس معاہدے میں اسرائیل کے یرغمالوں کے تبادلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کے لیے مزید امداد کی شرائط شامل تھیں۔
اسماعیل ہنیہ کی ابتدائی زندگی
اسماعیل ہنیہ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی میں سرگرم طلبہ تحریک کے رہنما تھے اور انہوں نے 1987 میں حماس کے قیام کے بعد اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔
حماس میں شمولیت کے بعد اسرائیلی فورسز نے اسماعیل ہنیہ کو گرفتار بھی کیا تھا اور انہیں کچھ مدت کے لیے غزہ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
ابتدا میں اسماعیل ہنیہ چاہتے تھے کہ حماس سیاسی میدان میں قدم رکھے۔ 1994 میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کی تشکیل حماس کو عالمی منظر نامے پر ابھرتی ہوئی تبدیلیوں سے نمٹنے کے قابل بنائے گا۔
اسماعیل ہنیہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے بھر پور حامی تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے 1994 میں انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیخ یاسین نوجوان فلسطینیوں کے رول ماڈل ہیں جن سے ہم نے اسلام سے محبت کرنا سیکھا ہے۔
حماس کے بانی بھی اسماعیل ہنیہ کے خاندان کو پسند کرتے تھے جن کا تعلق ایشکلون کے قریب الجورا نامی گاؤں سے تھا۔
اسماعیل ہنیہ نے بہت جلد ہی شیخ یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا تھا اور انہیں 2003 میں حماس کے سربراہ کا مشیر مقرر کیا گیا۔
ان کی ایک تصویر بھی موجود ہے جس میں انہیں عمر رسیدہ اور اپاہج شیخ یاسین کے کان پر فون لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تاکہ وہ بات کر سکیں۔
سال 2004 میں اسرائیلی حملے میں شیخ یاسین کی ہلاکت کے بعد حماس میں قیادت کے بحران نے جنم لیا۔ لیکن 2006 میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کے بعد ہونے والے انتخابات میں حماس نے واضح برتری حاصل کی تو اسماعیل ہنیہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
اگلے ہی سال یعنی 2007 میں حماس نے غزہ کی پٹی کا مکمل کنٹرول سنبھالا۔
سال 2012 میں جب اسماعیل ہنیہ سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے اپنی مسلح جدوجہد ترک کر دی جس کے جواب میں ہنیہ نے کہا تھا کہ یقیناً نہیں، مزاحمت سیاسی، سفارتی اور عسکری شکل میں جاری رہے گی۔
فلسطینی امور پر گرفت رکھنے والے قطر یونیورسٹی سے وابستہ ماہر ادیب زیادہ نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسماعیل ہنیہ حماس کے اندر سخت گیر مؤقف رکھنے والے رہنماؤں اور عسکری ونگ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھتے تھے۔
ان کے بقول، اسماعیل ہنیہ عرب ملکوں کے سامنے حماس کی سیاسی حیثیت منوانے کی کوششوں میں مصروف رہے، وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی چہرہ تھے۔
اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔