شام میں حکومت ختم؛ بشار الاسد کے قریبی ساتھی اور فوجی افسران کہاں ہیں؟

فائل فوٹو

  • بشار الاسد کی حکومت میں مبینہ مظالم کے مرتکب افراد کو تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا: مبصرین
  • لبنان کی فورسز کے مطابق حالیہ دنوں میں شام سے آٹھ ہزار افراد نے سرحد عبور کی ہے۔
  • دمشق میں بننے والی عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بشار الاسد کی انتظامیہ میں ناانصافی کرنے والے حکام کا احتساب ہو گا۔
  • کئی شامی عہدے دار جعلی دستاویزات پر لبنان میں داخل ہوئے ہیں: انسانی حقوق کی تنظیم

ویب ڈیسک—شام میں بشار الاسد کی معزولی کے بعد ان کے کئی قریبی ساتھی، سینئر فوجی افسران اور انٹیلی جینس حکام منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ ان کے بارے میں ملک چھوڑنے یا آبائی علاقوں میں روپوش ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اسد خاندان نے شام میں 50 سال جاری رہنے والے دورِ حکمرانی میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے حکومت پر سوال اٹھانے والوں کو مبینہ طور پر قید کیا اور عقوبت خانوں میں رکھا جہاں مخالفین پر تشدد اور انہیں قتل کرنا معمول کی بات بتائی جا رہی ہے۔

شام میں عبوری حکومت قائم کرنے والی ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اعلان کر چکی ہے کہ اسد دور میں ناانصافی کرنے والے حکومتی عہدے داروں کا احتساب کیا جائے گا۔

ایچ ٹی ایس کے سربراہ احمد الشرع جو ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف ہیں، یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بیرون ملک جانے ولے مشتبہ افراد تک رسائی کے لیے ان ممالک کی حکومت سے رابطے کیے جائیں گے۔

تاہم بشار الاسد کی حکومت میں مظالم کے مرتکب افراد کو تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔

لبنان کی سیکیورٹی فورسز کے مطابق حالیہ دنوں میں شام سے اندازاً آٹھ ہزار افراد لبنان کی سرحد میں مصنع کے مقام سے داخل ہوئے ہیں اور تقریباً پانچ ہزار افراد بیروت ایئرپورٹ سے پڑوسی ممالک گئے ہیں۔

تاہم لبنان کے وزیرِ داخلہ بسام مولاوی کا کہنا ہےکہ کوئی شامی عہدے دار قانونی سرحدی گزرگاہوں سے لبنان میں داخل نہیں ہوا ہے۔

لبنانی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر اسد حکومت کے عہدے داروں کو لبنان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مصنع کی سرحدی گزرگاہ کے انچارج کو بشار الاسد کے بھائی سے دیرنا روابط کی وجہ سے چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے۔

تاہم برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے سربراہ رمی عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ شام کی گزشتہ حکومت کے کئی افسران جعلی سفری دستاویزات تیار کرکے لبنان میں داخل ہوئے ہیں۔

شام کے معزول صدر بشار الاسد اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ماسکو پہنچ چکے ہیں۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے انہیں سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ تاہم سابق شامی صدر کے قریب ترین سمجھے جانے والے کئی عہدے دار منظر سے غائب ہیں جن میں سے اہم ترین افراد یہ ہیں۔

ماہر الاسد

یہ معزول شامی صدر کے چھوٹے بھائی اور فوج کے فورتھ آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر تھے۔

شامی اپوزیشن ان پر قتل، تشدد، تاوان وصولی، منشیات کی اسمگلنگ اور حراستی مراکز چلانے کا الزام عائد کرتی ہے۔

ماہر الاسد پر امریکہ اور یورپی ممالک پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔

سریئن وار آبزرویٹری کے مطابق ماہر الاسد گزشتہ ہفتے غائب ہوگئے تھے اور ممکنہ طور پر روس پہنچ چکے ہیں۔

گزشتہ برس فرانسیسی حکام نے ماہر الاسد اور ان کے بھائی سمیت دو دیگر فوجی جنرلز کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

گرفتاری کے وارنٹ میں ان پر جنگی جرائم اور دمشق کے مضافات میں باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات شامل ہیں۔

میجر جنرل علی مملوک

مملوک صدر بشار الاسد کے سینئر سیکیورٹی مشیر اور سابق انٹیلی جینس چیف ہیں۔

وہ 2012 میں طرابلس میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے لبنان میں مطلوب ہیں۔ اس دھماکے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

مملوک فرانس میں بھی مطلوب ہیں جہاں ایک عدالت نے انہیں دیگر افراد سمیت غیر حاضری میں جنگی جرائم پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ مقدمہ 2013 میں ایک شامی نژاد فرانسیسی شہری اور اس کے بیٹے کے دمشق میں اغوا، تشدد اور قتل میں مملوک اور دیگر حکام کے ملوث ہونے سے متعلق تھا۔

سیریئن وار مانیٹر کے سربراہ عبدالرحمان کے مطابق مملوک لبنان فرار ہو چکے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس وقت بھی حزب اللہ کی حفاظت میں ہیں یا نہیں۔

بریگیڈیئر جنرل سہیل الحسن

سہیل الحسن شام کی فوج کے 25 ویں مشن فورسز ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ بعد ازاں سیریئن اسپیشل فورسز کے سربراہ بھی بنے۔

سیریئن اسپیشل فورسز نے شام کی خانہ جنگی کے دوران حلب سمیت دمشق کے مضافات میں اسد حکومت کو کنٹرول واپس دلانے کے لیے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

حسن روس کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور صدر پوٹن نے دورۂ شام میں ان کی تعریف بھی کی تھی۔

بریگیڈیئر جنرل سہیل الحسن کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہے وہ کہاں ہیں۔

SEE ALSO: شام میں ایران کی 'پراکسیز' کا کیا ہوا؟

میجر جنرل حسام لوکا

حسام لوکا اسد حکومت میں جنرل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جینس سروس کے سربراہ تھے اور اس حیثیت میں زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ تاہم انہوں نے بغاوت کے مرکز حمص پر کریک ڈاؤن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس کریک ڈاؤن میں ملوث ہونے کی بنا پر امریکہ اور برطانیہ نے لوکا پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

لوکا بھی تاحال لاپتا ہیں۔

’دریہ کے قصائی‘: میجر جنرل قحطان خلیل

قحطان خلیل بھی ان سینئر حکام میں شام ہیں جن کے اتا پتا معلوم نہیں ہے۔

وہ ایئرفورس انٹیلی جینس سروس کے سربراہ تھے اور انہیں ’دریہ کے قصائی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

خلیل کی قیادت میں 2012 میں دمشق کے مضافات میں دریہ کے مقام پر ہونے والے ایک حملے میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔

دیگر حکام

ایئرفورس انٹیلی جینس سروس کے سابق سربراہ ریٹائرڈ میجر جنرل جمیل حسن بھی دریہ حملوں کے ذمے داروں میں شامل ہیں اور فرانس نے انہیں بھی مملوک کے ساتھ جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

شام کے وزیرِ دفاع لیفٹننٹ جنرل علی عباس اور صدارتی دفتر کے سربراہ اور بشار الاسد کی ذاتی سیکیورٹی کے انچارج بسام مرعج الحسن پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔

اس خبر کی تفصیلات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔