امریکہ کی ایک عدالت نے نصف صدی قبل شہری حقوق کے معروف رہنما میلکم ایکس کے قتل کے الزام میں سزا یافتہ دو افراد کو حال ہی میں اس الزام سے بری کر دیا ہے۔
اس مقدمے میں 1966 میں تین ملزمان کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی لیکن اس کیس سے متعلق حقائق پر کئی سوالات پائے جاتے تھے۔ اس حالیہ پیش رفت کے بعد ایک بار پھر یہ قتل، اس سے جڑے حقائق اور میلکم کی شخصیت خبروں میں ہے۔
امریکہ میں افریقی نژاد امریکیوں کے حقوق کے لیے چلنے والی تحریکوں میں 1960 کی دہائی میں دو نام منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک مارٹن لوتھر کنگ جونیئر تھے جو اپنی سحر انگیز خطابت اور عدم تشدد پر مبنی نظریات اور انداز کی وجہ سے وہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کی ایک علامت سمجھے جاتے ہیں۔
اس دور میں سیاہ فام امریکی شہریوں کے لیے اٹھنے والی ایک اور مقبول ترین آواز میلکم ایکس کی تھی۔ لیکن لوتھر کے مقابلے میں میلکم ایکس ایک متنازع شخصیت رہے۔ وہ عام طور پر سفید فام افراد کو ’بلیو آئیڈ ڈیول‘ کہا کرتے تھے اور سیاہ فاموں کا اپنا سماج یا اپنی الگ دنیا بسانے کے حامی رہے تھے۔
سفید فام نسل پرستی کے خلاف اپنے جارحانہ انداز اور سیاہ فام افراد پر تشدد اور ان کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک پر میلکم ایکس کے واشگاف مؤقف کی وجہ سے انہیں سیاہ فام امریکیوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
میلکم ایکس کون؟
میلکم ایکس 1925 میں امریکہ کی ریاست نبراسکا کے شہر اوہاما میں پیدا ہوئے۔ میلکم کی محض 39 سالہ زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ میلکم کے والد ایک مسیحی مبلغ تھے اور وہ مفکر مارکس گاروی کے سیاہ فام قوم پرستی کے افکار سے بھی متاثر تھے۔ مارکس گاروی کا کہنا تھا کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کو کبھی سماجی انصاف اور مساوات نہیں ملیں گے اس لیے انہیں اپنے ’اصلی گھر‘ یعنی افریقہ چلے جانا چاہیے۔
میلکم کے والد گاروی کے افکار کی تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔ اس لیے انہیں سفید فام شدت پسند تنظیم ’کو کلس کلین‘ کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ نبراسکا سے مشی گن منتقل ہوگئے تھے۔
معروف امریکی مصنف ایلکس ہیلی کی مرتب کردہ سوانح ’دی آٹو بائیو گرافی آف میلکم ایکس‘ کے مطابق مشی گن میں بھی میلکم کے والد کو دھمکیوں کا سامنا رہا اور 1931 میں سفید فام نسل پرستوں نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ لیکن مقامی حکام نے ان کے والد کے قاتلوں کے خلاف کسی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
والد کی موت کے بعد میلکم کی پرورش ایک سماجی تنظیم نے کی۔ میلکم اس وقت تک ہائی اسکول میں جانے کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن تعلیم جاری رکھنے کے بجائے وہ بوسٹن منتقل ہوگئے جہاں وہ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے۔
سن 1946 میں پہلی مرتبہ 21 برس کی عمر میں میلکم چوری کے الزام میں جیل گئے جہاں وہ ’نیشن آف اسلام‘ کے پیشوا عالیجاہ محمد کی تعلیمات سے روشناس ہوئے۔
'نیشن آف اسلام' کا آغاز والس فرد محمد نے 1930 میں ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ سے کیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیاہ فام قوم پرست تنظیم تھی۔ اس میں روایتی اسلامی تعلیمات اور سیاہ فام قوم پرستی کو ملا کر ایک الگ فکر ترتیب دی گئی تھی۔ فرد محمد کے بعد عالیجاہ محمد اس تنظیم کے سربراہ بنے اور وہ خدا کا نمائندہ‘ یا ’اپوسٹل‘ ہونے کے دعوے دار تھے۔
یہ تنظیم نسلی امتیاز پر یقین رکھتی تھی اور نسلی بنیاد پر سیاہ اور سفید فام افراد کی سماجی علیحدگی یا 'سیگریگیشن' کا پرچار کرتی تھی۔
میلکم پر عالیجاہ کی تعلیمات کا گہرا اثر ہوا اور انہوں نے تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ چھ برس بعد جب میلکم کو جیل سے رہائی ملی تو وہ نیویارک میں 'نیشن آف اسلام' کے 'منسٹر' یعنی پیشوا کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔
وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ اسی لیے انہیں نیویارک میں تیزی سے شہرت ملی اور بعد میں وہ پورے امریکہ میں مقبول ہونے لگے۔
اختلافات کا آغاز
ایلکس ہیلی کی مرتب کردہ سوانح حیات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جہاں امریکہ میں ایک جانب شہری حقوق کی جدوجہد میں تیزی آگئی تھی وہیں میلکم ایکس کو محسوس ہونے لگا تھا کہ عالیجاہ محمد اس تحریک کی حمایت بھرپور انداز میں نہیں کر رہے ہیں۔ میلکم ایکس پہلے ہی اپنے بیانات اور تقاریر میں قدرے جارحانہ انداز اختیار کر چکے تھے۔
اس جارحانہ انداز کی وجہ سے میلکم کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
میلکم نے اپنے سوانح میں لکھا ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ نیشن آف اسلام کے سربراہ عالیجاہ محمد کو ان کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا تھا اور اسے روکنے کے لیے تدابیر بھی شروع کردی گئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگرچہ 1963 میں عالیجاہ محمد نے میلکم کو نیشن آف اسلام کا نیشنل منسٹر یا قومی نمائندہ مقرر کردیا تھا اور بڑے عوامی اجتماعات میں بھی کھل کر ان کی تعریف کر رہے تھے۔ لیکن درونِ خانہ عالیجاہ نے میلکم سے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
’اخلاقیات پر گفتگو کم کر دی‘
میلکم نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ان کے سننے والوں نے اس بات کو محسوس کیا ہوگا کہ 1963 سے انہوں نے اپنی تقریروں اور لیکچرز میں اخلاقیات پر گفتگو کرنا کم کردی تھی۔
وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے عالیجاہ محمد کو ہمیشہ اخلاقیات اور پاک دامنی کا درس دیتے سنا۔ عالیجاہ جن کاموں سے بچنے کی سب سے زیادہ تاکید کرتے تھے ان میں مرد و زن کا بغیر شادی کے تعلق قائم کرنا بھی شامل تھا۔
نیشن آف اسلام میں اس طرح غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنے والوں کا طویل عرصے تک سوشل بائیکاٹ کردیا جاتا تھا جو کسی بھی رکن کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ سزا تصور ہوتی تھی۔
میلکم کے مطابق عالیجاہ کی نجی زندگی سے متعلق افواہیں 1955 سے سامنے آ رہی تھیں۔ البتہ 1962 کے اوائل سے نیشن آف اسلام کے کئی عہدیدار اور ان خواتین سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی جن سے عالیجاہ نے تعلق قائم کیا تھا اور ان میں سے بعض اس ناجائز تعلق کی وجہ سے حاملہ بھی ہو چکی تھیں۔ میلکم کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔
وہ جہاں بھی جاتے تھے قریبی لوگ اور صحافی بھی عالیجاہ کے کردار کے بارے میں ان سے سوالات کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
میلکم نے نیشن آف اسلام میں اپنے ساتھیوں سے اپنی اس تشویش کا اظہار کیا اور عالیجاہ محمد کو بھی اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ ان کی نجی زندگی کے بعض خفیہ پہلوؤں کی میلکم کو خبر ہو گئی ہے۔
ایک متنازع بیان اور۔ ۔ ۔
عالیجاہ محمد اور میلکم ایکس میں دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ عالیجاہ کی ذاتی زندگی سے متعلق میلکم ایکس کی علم میں آنے والے پہلوؤں کے علاوہ نیشن آف اسلام کی پالیسیوں سے اختلاف بھی اس کی ایک وجہ تھی۔
وہ پولیس تشدد کے مقابلے میں سیاہ فاموں کی جانب سے اپنا دفاع کرنے کے حق کے حامی تھے جب کہ نیشن آف اسلام اس معاملے پر خاموش تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس دوران امریکہ میں ایک بڑا سانحہ رونما ہوا جس نے میلکم کی کہانی کو بھی ایک ڈرامائی موڑ دے دیا۔ 22 نومبر 1963 کو امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی قتل کر دیے گئے۔
ایک تقریب میں اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے میلکم ایکس نے ایک ضرب المثل کا استعمال کیا جس کے اردو میں قریب قریب مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’’جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔"
جب میلکم ایکس کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا تو اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
اس تنازعے کے بعد عالیجاہ محمد نے میلکم ایکس پر 90 روز تک صدر کے قتل کے بارے میں بات کرنے کی پابندی لگادی۔ میلکم نے اس پابندی کو بلا چوں چرا قبول کر لیا۔
لیکن ساتھ ہی انہیں احساس ہو چکا تھا کہ عالیجاہ محمد اور نیشن آف اسلام کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا خیال تھا اس تنازع کو ان کی مستقل زبان بندی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
میلکم نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ان پر عائد کی گئی 90 روز کی پابندی کے حکم نامے میں عالیجاہ نے یہ بات بھی شامل کی تھی کہ اگر میلکم ’اطاعت‘ کرے گا تو یہ پابندی ختم کر دی جائے گی۔
ان کے مطابق اس حکم نامے سے نیشن آف اسلام میں یہ تاثر گیا کہ انہوں نے عالیجاہ سے بغاوت کی تھی۔ اس تاثر کی وجہ سے نیشن آف اسلام میں میلکم سے نفرت پیدا ہوگئی اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ وہ مزید اب اس تنظیم کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔
نئی تنظیم کا قیام
مارچ 1964 میں میلکم ایکس نے نیشن آف اسلام سے باضابطہ طور پر اپنی راہیں الگ کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے ’مسلم موسک انک‘ اور 'آرگنائزیشن آف ایفرو امیرکن یونٹی' کے نام سے دو تنظیمیں قائم کرنے کا اعلان بھی کیا۔
اپریل میں میلکم نے حج کے لیے مکہ کا سفر کیا۔ ان کے بقول اس سفر کے دوران انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی کا موقع ملا اور انہوں نے عالیجاہ محمد کی بیان کردہ عقائد سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
SEE ALSO: گروولینڈ فور: وہ چار سیاہ فام امریکی جنہیں 70 برس بعد انصاف ملاسیاہ فام حقوق کی جدوجہد سے متعلق میلکم کی فکر پہلے ہی عالیجاہ سے مختلف تھی اور تنظیم سے علیحدگی کے بعد انہوں نے اپنے ان افکار اور عالیجاہ کی ذاتی زندگی سے متعلق حقائق پر بھی کھل کر بات کرنا شروع کردی۔
ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ نیشن آف اسلام میں میلکم کے قتل کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق جب میلکم سے ان افواہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ پہلے ہی ایک ایسے شخص کی زندگی گزار رہے ہیں جو مرچکا ہے۔
’میری جیب سے ہاتھ نکالو‘
امریکی صحافی پیٹر گولڈ مین اپنی کتاب ’ڈیتھ اینڈ لائف آف میلکم ایکس‘ میں لکھا ہے کہ قتل کی دھمکیوں کے باوجود میلکم نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اپنے ذاتی محافظوں کو اپنی تقریر سننے کے لیے آنے والوں کی تلاشی لینے سے بھی منع کر دیا تھا۔ بالآخر 21 فروری 1965 کا وہ دن آن پہنچا جب میلکم ایکس کو قتل کردیا گیا۔
وہ مین ہیٹن میں ایک تقریب سے تقریر کا آغاز کر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے شور مچانا شروع کردیا "میری جیب سے ہاتھ نکالو۔"
اس کے ساتھ ہی اس نے دوسرے شخص کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ ہال میں شور شرابا ہونے لگا۔ میلکم اسٹیج ہی سے ان دونوں کو جھگڑے سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے۔
میلکم کے ذاتی محافظ اور مجمع بھی جھگڑنے والے ان افراد کی جانب متوجہ ہوگئے۔
اسی اثنا میں ایک شخص مجمعے سے نکلا اور اس نے اسٹیج کی جانب آکر برق رفتاری کے ساتھ اپنی ہاتھ میں موجود شوٹ گن سے میلکم کے سینے کا نشانہ باندھا اور فائر کردیا۔ فائر ہونے کے بعد دو مزید حملہ آور آگے بڑھے اور میلکم پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔
ہال میں پہلے ہی افراتفری کا ماحول تھا۔ فائرنگ کے بعد بھگدڑ مچ گئی جس کی آڑ میں حملہ آوروں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک حملہ آور پر میلکم کے باڈی گارڈ نے گولی چلائی جو اس کی ران میں لگی۔ اس حملہ آور کی شناخت بعد میں عبدالحلیم مجاہد کے نام سے ہوئی۔
اس حملے کے پانچ دن بعد اس کیس میں مزید دو ملزمان عزیز اور اسلام کوگرفتار کیا گیا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر تینوں افراد پر میلکم کے قتل کی فردِ جرم عائد کردی گئی۔ ان تینوں ملزمان کا تعلق نیشن آف اسلام سے تھا۔
مقدمے کی کارروائی پر سوالات
مقدمے کی کارروائی کے دوران ملزم اسلام کی بطور حملہ آور شناخت کی گئی۔ دس عینی شاہدین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے حلیم اور عزیز کو جائے وقوعہ پر دیکھا تھا۔ لیکن متعدد گواہوں کے بیانات میں تضاد پایا گیا اور قتل سے عزیز اور اسلام کے تعلق کے شواہد بھی سامنے نہیں آسکے۔
SEE ALSO: مشکل حالات میں خود کو منوانے والی سیاہ فام اداکارائیںمقدمے کی کارروائی کے دوران زخمی ہونے والے ملزم حلیم نے اعترافِ جرم کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بیان میں اس نے عزیز اور اسلام کو اس قتل سے بری الذمہ قرار دیا۔ اس کے باوجود اس مقدمے میں تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
دستاویزی فلم سے رہائی تک
اس مقدمے کی کارروائی اور اس میں ہونے والی سزا پر اس وقت بھی سوال اٹھائے گئے تھے۔ 2020 میں معروف اسٹریمنگ پلیٹ فارم نیٹ فلکس نے ’ہو کیلڈ میلکم ایکس Who Killed Malcolm X? کے عنوان سے دستاویزی فلم بنائی جس میں میلکم ایکس کے قتل پر تحقیق کرنے والے عبد الرحمٰن محمد اور صحافی لز پائن کے انکشافات شامل کیے گئے۔
دستاویزی فلم میں عزیز اور اسلام کی بے گناہی سے متعلق پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس آر جونیئر نے یہ مقدمہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔
ایک غیر سرکاری تنظیم ’انوسینٹ پراجیکٹ‘ نے عزیز اور اسلام کا مقدمہ لڑا۔ اس مقدمے میں دوبارہ کارروائی کے نتیجے میں تقریباً 55 برس بعد عزیز اور اسلام کی بے گناہی ثابت ہوئی۔
لیکن ان کی بے گناہی ثابت ہونے کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ گزشتہ برس جب مقدمے کی کارروائی از سرِ نو شروع ہوئی تو واقعے کے کلیدی عینی شاہدین، تفتیشی افسران اور دیگر مشتبہ افراد کی موت ہو چکی تھی۔
مقدمے سے متعلق اہم دستاویزات اور آلۂ قتل بھی دستیاب نہیں تھے۔
اس کیس میں ایک گواہ ارنسٹ گرین نے شوٹ گن چلانے والے شخص کا جو حلیہ بیان کیا تھا وہ اس مقدمے میں سزا پانے والے اسلام سے نہیں ملتا تھا۔
گرین کا بتایا ہوا حلیہ نیشن آف اسلام کے ایک اور رکن ولیم بریڈلے سے ملتا تھا۔
ایف بی آئی کے پاس بریڈلے کی تفصیلات پہلے ہی تھیں۔ اس کے علاوہ زخمی ہونے والے حملہ آور حلیم نے بھی بریڈلے کی شناخت کی تھی۔
اسی طرح عزیز سے متعلق بھی ایک گواہ کا ایسا بیان دستیاب تھا جو حکام اس وقت پیش کرتے تو اس کی بے گناہی ثابت ہوجاتی۔
SEE ALSO: مردم شماری کے اعداد و شمار، امریکہ میں سفید فام آبادی گھٹ رہی ہےکم و بیش ایک سال تک جاری رہنے والی اس عدالتی کارروائی کے بعد گزشتہ ہفتے عدالت نے عزیز اور اسلام کو میلکم ایکس کے قتل سے بری کر دیا۔
کیس کی سماعت کرنے والے جج نے استغاثہ کی کارروائی کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان لوگوں کو شفاف قانونی کارروائی کا حق نہیں دیا گیا۔
حالیہ تحقیقات میں یہ بات واضح ہوئی کہ میلکم ایکس پر حملے میں ولیم بریڈلے کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد سامنے آئے البتہ بریڈلے خود 2018 میں اپنی موت تک اس الزام کی تردید کرتے رہے تھے۔
میلکم ایکس کے قتل میں جن تین لوگوں کو سزا ہوئی تھی ان میں سے عزیز اور اسلام کو الزام سے بری کردیا گیا ہے۔ عزیز اپنی بے گناہی کا فیصلہ سننے کے لیے موجود تھے لیکن اسلام اس سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
اس مقدمے میں عدالت نے سوائے حلیم کے کسی اور ملزم کا تعین نہیں کیا۔ حلیم بھی 2010 میں پیرول پر رہائی کے بعد بروکلین میں گم نامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
میلکم کے قتل کی تحقیقات میں ایف بی آئی اور نیویارک پولیس کی غفلت اور حقائق کو چھپانے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں۔ لیکن کم و بیش 55 برس بعد بھی میلکم کے قتل میں اور کون ملوث تھا؟ شوٹ گن سے ان کے سینے پر کس نے گولیاں برسائی تھیں؟ اس سوال کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں۔