پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 'وفاقیت' کے علم بردار اور وفاق میں بلوچوں کے حقوق کے نمائندے سمجھے جانے والے نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کی اصول پسند آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔
گزشتہ دو سال سے سرطان کی بیماری میں مبتلا میر حاصل خان بزنجو کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔
ان کی تدفین جمعہ کی شب ان کے آبائی علاقے نال میں اپنے والد میر غوث بخش بزنجو کے پہلو میں کر دی گئی۔
حاصل بزنجو نے سخت حالات کے باوجود قوم پرست سیاست کرتے ہوئے وفاق سے رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے سیاسی اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
حاصل بزنجو عوامی اور جمہوری حقوق سے متعلق اپنے والد میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی اصولوں پر چلتے ہوئے بلوچستان کی سب سے توانا آواز بن گئے۔
وہ سیاسی مصلحت کا سہارا لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاست سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے اور دوسری طرف انہوں نے قوم پرست سیاست میں کبھی تشدد کی بات بھی نہیں کی۔
'بابائے بلوچستان' کے فرزند نے سیاست میں اصولوں پر کار بند رہتے ہوئے، دھیمے پن سے اپنی الگ شناخت سے خود کو منوایا۔
حاصل بزنجو دو بار رکن قومی اسمبلی، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہے۔
خاندانی پس منظر
میر حاصل خان بزنجو بلوچستان میں سیاست کی بنیاد رکھنے والے صوبے کے پہلے سیاسی گورنر میر غوث بخش بزنجو کے بیٹے تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میر غوث بخش بزنجو نے 1920 میں بلوچستان میں سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جو کہ اس وقت ریاست قلات کی پہلی سیاسی جماعت تصور کی جاتی ہے۔
میر غوث بخش بزنجو تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے اور انہوں نے لیاری سے گرفتاری بھی پیش کی۔ لیکن بعد میں دونوں جماعتوں میں فاصلے پیدا ہو گئے۔
غوث بخش بزنجو کی زندگی میں ان کے بیٹے بزن بزنجو کو ان کے سیاسی وارث کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ تاہم ان کی وفات کے بعد حاصل بزنجو ان کے سیاسی وارث کہلائے۔
اگرچہ حاصل بزنجو نے خود کو اپنے والد کی شناخت سے منسلک نہیں کیا۔ تاہم وہ غوث بخش بزنجو کے سیاسی اصولوں پر کاربند رہے۔
طلبا سیاست سے قومی رہنما تک
میر حاصل بزنجو 1958 میں بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل نال میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹرمیڈیٹ کے بعد 1980 میں جامعہ کراچی میں داخلہ لیا۔
حاصل بزنجو نے بلوچ طلبہ کی سب سے متحرک تنظیم بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور جامعہ کراچی میں ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف تشکیل پانے والے بائیں بازو کے طلبہ اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ (یو ایس ایم) کے چیئرمین بھی رہے۔
وہ ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی میں بھی فعال رہے۔ جامعہ کراچی میں ‘اسلامی جمعیت طلبہ’ کے ساتھ ایک جھگڑے میں ان کی ٹانگ پر گولی بھی لگی۔
جامعہ کراچی میں ان کے ساتھ پڑھنے والے صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ حاصل بزنجو ترقی پسند طلبہ سیاست میں خاصے سرگرم تھے اور وہ ایسے وقت میں یو ایم ایس کے چیئرمین بنے، جب ایک مذہبی طلبہ تنظیم کے دباؤ کے باعث جامعہ کراچی میں ترقی پسند طلبہ کا داخلہ بند تھا۔
اپنے والد کی وفات کے بعد حاصل بزنجو 1990 میں خضدار کے حلقے این اے 205 سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے اور بعد ازاں اسی حلقے سے وہ 1997 میں دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
حاصل بزنجو نے 1998 میں بلوچستان نیشنل پارٹی چھوڑ کر بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2002 میں ڈاکٹر عبدالمالک کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر نئی جماعت نیشنل پارٹی قائم کی۔
تجزیہ کار مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاست جب ‘تقسیم در تقسیم’ سے گزر رہی تھی، تو حاصل بزنجو نے اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد تشکیل دیا۔
نواز شریف سے سیاسی اتحاد یا دوستی
حاصل بزنجو پاکستان کے ان گنے چنے سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے کبھی اپنی سیاسی وفاداریوں کا سودا مفادات کی بنیاد پر نہیں کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ 1990 سے اتحاد میں چلے آنے والے حاصل بزنجو نے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد نواز شریف کی جانب سے 2008 کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کی حمایت کی۔
بعد ازاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کے قائل کرنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ ختم کیا۔ تاہم حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
حاصل بزنجو 2009 میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے اور 2013 کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی نے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جس کے وزیرِ اعلی ڈاکٹر عبدالمالک منتخب ہوئے۔
دہائیوں کی سیاسی جدوجہد اور پارلیمانی سیاست کرنے والے حاصل بزنجو نے 2014 میں پہلی بار وفاقی وزیر کا منصب سنبھالا۔
صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں ترقی پسندوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ سیاست کی حمایت کی جائے تو حاصل بزنجو، نواز شریف کے اتحادی بنے جو مشکل حالات اور سیاسی قلابازیوں کے ماحول میں طویل ترین اتحاد ثابت ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ حاصل بزنجو، بے نظیر بھٹو کی طرح صرف اپنے والد کی شناخت لے کر نہیں چلے بلکہ جدوجہد سے اپنی پہچان خود بنائی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ حاصل بزنجو نے قوم پرست سیاست دان ہونے کے باوجود، وفاق سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور قوم پرستی کو نظر انداز کیے بغیر وفاق کی سیاست کی۔
SEE ALSO: 'سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے سے ریاستی اداروں کی بدنامی ہو گی'حاصل بزنجو کے قریبی دوست اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ حاصل بزنجو نے سیاست میں وفاداریاں تبدیل کرنے کے کھیل کے دور میں خود کو اصول پسند سیاست دان منوایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سیاست میں زیادہ وقت نواز شریف کے اتحادی رہے۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ان کے اچھے مراسم رہے۔
انہوں نے کہا کہ حاصل بزنجو محفلوں میں پر رونق چہرہ ہوتے تھے جو اپنی سحر افروز گفتگو اور دھیمے پن سے اپنا گرویدہ بنانے کا فن رکھتے تھے۔
مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ حاصل بزنجو کا سیاسی اتحاد، دوستی میں تبدیل ہوا اور 2018 کے سینیٹ انتخابات میں نواز شریف نے انہیں بطور چیئرمین سینیٹ اپنا امیدوار نامزد کیا۔ تاہم انہوں نے معذرت کی کیوں کہ وہ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو دوبارہ منتخب کرانے کی خواہش رکھتے تھے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ 2018 میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہٹائے جانے کے بعد حاصل بزنجو کے لیے نواز شریف کے ساتھ چلنا بہت مشکل تھا۔ تاہم انہوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور حکومت و اپوزیشن میں ساتھ رہے۔
حاصل بزنجو نے راقم کے سوال پر ایک مرتبہ خود بتایا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ ان کے اتحاد کا آغاز نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوا تھا۔ لیکن حالات ایسے رہے کہ وہ حکومت و اپوزیشن میں مسلم لیگ (ن) کے اتحادی رہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ذاتی تعلقات اور اتحاد کی بات پر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کو اپنا دوست تصور کرتے ہیں۔ لہذا وہ مسلم لیگ (ن) سے اتحاد نہیں چھوڑ سکتے۔
اصولی سیاست سے قد آور رہنما تک کا سفر
قوم پرست سیاست کے وارث ہونے کی حیثیت سے حاصل بزنجو نے بلوچستان کے مسائل کے مسلح حل کی بجائے سیاسی حل کی افادیت پر زور دیا۔ وہ مسلح بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے اعلانیہ حامی رہے۔
سن 2013 کے عام انتخابات کے بعد جب ان کی جماعت نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو بیرونی ممالک میں سیاسی پناہ لینے والے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ انہوں نے سنجیدہ رابطے کیے اور انہیں واپس آ کر قومی دھارے میں سیاسی جدوجہد پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
تاہم ان کی یہ کوشش ناراض بلوچ رہنماؤں کے مثبت ردِ عمل کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی۔
حاصل بزنجو کہا کرتے تھے کہ بلوچستان میں شورش وفاقی کی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ حاصل بزنجو سیاسی معاملات کو سیاست کے ذریعے حل کرنے کے حامی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سخت حالات کے باوجود وہ انتہا پسندی کی طرف نہیں گئے۔ لیکن وفاق سے صوبے کے حقوق پر سمجھوتہ بھی نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان میں پاکستان کی بات کرنے والے بہت کم سیاسی رہنما رہ گئے، حاصل بزنجو پاکستانیت کے اپنے مؤقف پر کھڑے رہے۔
مجاہد بریلوی نے کہا کہ نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی کے جانشینوں نے جب اپنے بزرگوں کی سیاست کی بجائے مصلحت کی سیاست کو اپنا لیا تو ایسے میں حاصل بزنجو اصولی سیاست کی بنیاد پر بلوچستان کے سب سے قد آور رہنما بن گئے۔
'حاصل بزنجو کا تبصرہ مقتدر قوتوں سے انتقام لیتا رہے گا'
حزب اختلاف کی جماعتوں نے 2019 میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن قیادت نے متفقہ طور پر حاصل بزنجو کو امیدوار نامزد کیا۔
حزبِ اختلاف کی ایوانِ بالا میں واضح اکثریت کے باوجود حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ کا انتخات ہار گئے تو اپنے خطاب میں انہوں نے اسے جمہوریت کے لیے 'سیاہ دن' قرار دیا۔
حاصل بزنجو نے اکثریت کے باوجود انتخاب میں ہارنے کے سوال پر کہا کہ ان غیر متوقع نتائج کے ذمہ دار انٹر سروسز انٹیلی (آئی ایس آئی) کے سربراہ ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس وقت کے سربراہ نے حاصل بزنجو کے اس بیان کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ قوم پرست بلوچ رہنما ہوتے ہوئے حزبِ اختلاف کا مشترکہ امیدوار ہونا ان کے قومی سیاست میں کردار کا عکاس تھا۔ تاہم 64 اراکین سینیٹ کا کھڑے ہو کر حمایت کے باوجود حاصل بزنجو کا خفیہ رائے شماری میں ہار جانا، قوم پرستوں کے لیے اچھا پیغام نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں شکست پر حاصل بزنجو کا تبصرہ تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔ جو مقتدر قوتوں سے انتقام لیتا رہے گا۔
مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ حاصل بزنجو اس وقت بلوچستان کے سب سے قد آور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک توانا آواز بھی تھے اور ان کے دنیا سے جانے پر افسردگی اس لیے بھی ہے کہ پاکستان کو ان حالات میں حاصل بزنجو جیسے قومی رہنماؤں کی ضرورت ہے۔