پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے لیکن اب تک نگراں وزیرِ اعظم کے لیے کسی نام کا اعلان نہیں ہوا۔ تاہم اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا اس کے لیے مختلف نام سامنے آ رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان نگراں وزیرِاعظم کے لیے مشاورت ہوئی ہے۔ راجہ ریاض شہباز شریف سے ملاقات کے لیے جمعرات کو وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق راجہ ریاض نگراں وزیرِ اعظم کے لیے تین نام لے کر وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچے ہیں جب کہ شہباز شریف نے بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد تین نام فائنل کیے ہیں۔
عام طور پر نگراں سیٹ اپ صرف 60 سے 90 دن کا ہوتا ہے لیکن آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کروائے جانے کے فیصلے کے بعد ماہرین کے مطابق نگراں وزیراعظم کی مدت چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے ہیں لیکن ابھی نئی حلقہ بندیوں کا آغاز ہونا ہے اور اس کام میں الیکشن کمیشن کے مطابق کم سے کم چار ماہ کا وقت درکار ہو گا۔
اس وقت نگراں وزیرِ اعظم کے لیے مختلف جماعتوں کی طرف سے متعدد نام سامنے آرہے ہیں اور جیسے ہی کوئی نام سامنے آتا ہے اس پر بحث کا آغاز ہو جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میڈیا پر آنے والے ناموں میں سابق سفارت کار جلیل عباس جیلانی، سابق وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور سابق پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر فواد حسن فواد کے نام سامنے آ رہے ہیں۔
ان میں سے نگراں وزیراعظم کون بنے گا؟ اس بارے میں کسی جماعت کی طرف سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف اور قائد حزبِ اختلاف راجہ ریاض کے درمیان ہونے والی مشاورت کے بعد بھی اب تک کوئی نام سامنے نہیں آیا۔ ایسے میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کی رہنما اور سابق رکن اسمبلی سائرہ بانو کہتی ہیں کہ "اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض تو کیا، وزیراعظم شہباز شریف بھی اب تک نگراں وزیراعظم کے نام سے بے خبر ہیں۔ یہ نام کہیں اور سے آئے گا۔"
پاکستانی میڈیا میں کون سے نام زیرِ گردش ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔عبدالحفیظ شیخ
عبدالحفیظ شیخ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے صاحبزادے ہیں اور انہیں پیپلز پارٹی کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
عبدالحفیظ شیخ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف کے دور میں بھی حکومت کا حصہ رہے ہیں اور وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی خاصہ قریب سمجھا جاتا ہے اور عمران خان کے دور میں ان کی بطور وزیرِ خزانہ تعیناتی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
عبدالحفیظ شیخ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ 1990 کی دہائی میں انہوں نے یونیورسٹی کو چھوڑ کر ورلڈ بینک میں ملازمت کی اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں سعودی عرب میں ورلڈ بینک کے پروگرام کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔
سیاست میں عبدالحفیظ شیخ کی پہلی باضابطہ انٹری جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی جب 2000 میں انہیں سندھ کا وزیرِ خزانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد انہیں وزیراعظم کا مشیر برائے نجکاری مقرر کیا گیا اور سینیٹ میں مسلم لیگ ( ق) کے ٹکٹ پر منتخب کروایا گیا۔
سن 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بننے کے بعد وزیرخزانہ بنے۔ حکومت ختم ہوئی تو وہ پھر بیرونِ ملک چلے گئے اور لگ بھگ سات سال ملک سے باہر رہنے کے بعد ایک بار پھر واپس آئے اور تحریکِ انصاف کے مشیرخزانہ مقرر ہوئے۔
پی ٹی آئی حکومت میں ہی عہدے سے فارغ ہوئے اور ایک بار پھر بیرونِ ملک چلے گئے اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق نگراں وزیراعظم کی فہرست میں ان کا نام سامنے آنے کے بعد عبدالحفیظ شیخ ایک بار پھر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
2۔ جلیل عباس جیلانی
جلیل عباس جیلانی مارچ 2012 سے دسمبر 2013 تک سیکریٹری خارجہ رہنے کے بعد فروری 2017 تک وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کرتے رہے۔
جلیل عباس جیلانی ایک سابق سفارت کار ہیں اور ان کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو اعلیٰ سطح کے بیوروکریٹس کے لیے جانا جاتا ہے۔ جلیل عباس پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کے کزن بھی ہیں۔
انہوں نے اہم ممالک میں پاکستان کے ایلچی کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس میں ڈپٹی سیکریٹری، بھارت میں قائم مقام ہائی کمشنر اور وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر (انڈیا) کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں جس کے بعد انہیں آسٹریلیا میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنا کر بھیجا گیا تھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد جلیل عباس جیلانی نے پاکستان فضائیہ کے تھنک ٹینک سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی (سی اے ایس ایس) میں خارجہ پالیسی کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
سال 2013 سے 2017 تک امریکہ میں پاکستانی سفیر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے انہیں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
3۔ تصدق حسین جیلانی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام بھی نگراں وزیراعظم کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ان کے نام سے متعلق چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ نام پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا ہے تاہم اس بارے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی واضح اعلان نہیں کیا گیا۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد تصدق حسین جیلانی چیف جسٹس بنے تھے۔ وہ 31 جولائی 2004 میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ سات اگست 1994 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی 1999 میں سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز میں شامل تھے بعد میں وہ اس بینچ میں بھی شامل تھے جس نے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ افتخار چوہدری کے حق میں سنایا۔
سابق صدر مشرف کی طرف سے تین نومبر2007 کی ایمرجنسی لگنے سے پہلے بننے والے سات رکنی بینچ میں بھی وہ شامل تھے جس نے حکم دیا تھا کہ کوئی بھی جج پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے۔
جسٹس تصدق جیلانی سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ناصر الملک کے ساتھ اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے دور میں دوبارہ حلف اٹھا کر عہدے پر بحال ہوئے۔
تصدق حسین جیلانی کے بہت سے رشتے دار اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں، قومی اسمبلی میں ایڈیشنل سیکریٹری شاہد عباس جیلانی ان کے بھائی ہیں اور سابق سفیر جلیل عباس جیلانی، ان کے بھانجے ہیں۔
4۔اسحاق ڈار
شہباز شریف حکومت میں وزیرِ خزانہ کے عہدے پر فائز رہنے والے اسحاق ڈار بھی نگراں وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل ہیں۔ لیکن اس عہدے کے لیے سیاسی طور پر شدید مخالفت کی وجہ سے ان کا نگراں وزیرِ اعظم بننا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
شہباز شریف اور نواز شریف کے ادوار میں وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں اور ایسی شخصیت ہیں جن پر نواز شریف حد سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار نواز شریف کے مختلف ادوار میں وزیرخزانہ رہنے کے بعد 2017 میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے تھے اور برطانیہ میں مقیم تھے۔ تاہم شہباز شریف کی حکومت آنے کے چھ ماہ بعد مفتاح اسماعیل پر تنقید کے بعد انہیں لایا گیا اور انہوں نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا۔
اپنے دور وزارت میں انہیں آئی ایم ایف کے حوالے سے سخت چیلنجز کا سامنا رہا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار مہنگائی نے نئے ریکارڈ قائم کیے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اسحاق دار آئی ایم ایف پروگرام بحال کرانے میں تو کامیاب ہوئے لیکن ملک میں مہنگائی کی نئی لہر کے باعث حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
5۔شاہد خاقان عباسی
کئی دہائیوں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر مری سے منتخب ہونے والے شاہد خاقان عباسی 2018 میں پہلی مرتبہ اپنے آبائی حلقے سے انتخاب ہارے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے لاہور میں حمزہ شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی نشست پر اُنہیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا اور وہ جیت کر ایوان میں پہنچے۔
پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم بننے والے شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شریف خاندان میں وزارتِ عظمیٰ شریف خاندان کے علاوہ صرف ایک شخص کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور وہ شخص شاہد خاقان عباسی تھے۔
والد کی وفات کے بعد سیاست میں آنے والے شاہد خاقان امریکہ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کے بعد پاکستان آئے اور یہاں کی سیاست میں مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں میں کام کرتے رہے۔ انہیں وزیر پیٹرولیم کے علاوہ پی آئی اے کا چیئرمین بھی لگایا گیا جس کے بعد انہوں نے نجی ایئر بلیو کی بنیاد بھی رکھی جس میں ان سمیت مختلف سرمایہ کار شامل تھے۔
شاہد خاقان عباسی کے حالیہ عرصے میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعلقات کشیدہ نظر آئے اور وہ کھلے عام حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے۔ لیکن سیاسی جماعت کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ میری سیاست صرف نواز شریف کے ساتھ ہی ہے اور اگر مسلم لیگ (ن) میں سیاست نہ کی تو میں اس سے الگ ہو جاؤں گا۔
مفتاح اسماعیل کو وزارت خزانہ سے ہٹانے اور اسحاق ڈار کو لانے پر شاہد خاقان کے پارٹی قیادت سے اختلافات اس وقت بڑھ گئے جب مریم نواز کو پارٹی میں سینئر نائب صدر کا عہدہ دیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں شاہد خاقان چند دیگر سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ایک الگ فورم پر ملکی مسائل کے حل کے حوالے سے بات کرتے رہے ہیں جسے ایک نیا سیاسی گروپ سمجھا گیا لیکن اس گروپ میں شامل سیاست دانوں نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے۔
شاہد خاقان اس وقت بھی (ن) لیگ میں ہی ہیں اور ان کا نام بھی بطور نگراں وزیراعظم لیا جا رہا ہے تاہم پارٹی کے اندر بھی ان کے نام کے حوالے سے بعض حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
6۔ فواد حسن فواد
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کا نام بھی اس عہدے کے لیے لیا جارہا ہے لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس عہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
فواد حسن فواد کو نواز شریف کے دور میں ڈی فیکٹو وزیراعظم سمجھا جاتا تھا۔ نواز شریف اپنے زیادہ تر اہم فیصلے فواد حسن فواد کے مشورے سے ہی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی میں وزارتِ داخلہ اور فوجی حکام کے ساتھ ساتھ فواد حسن فواد کا نام بھی شامل تھا۔
نواز شریف دور کے اختتام کے بعد سابق دورِ حکومت میں وہ دو سال سے زائد عرصے تک نیب کیسز میں زیرعتاب رہے اور زیادہ وقت جیل میں رہے۔ اس کے بعد انہیں ضمانت ملی اور اسی دوران وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد فواد حسن فواد شاعری کرتے ہیں اور کبھی کبھی میڈیا کے کسی ٹاک شو میں بھی آجاتے ہیں ۔
نگراں وزیراعظم کے لیے ان کا نام اگرچہ لیا جا رہا ہے تاہم بعض مبصرین کے مطابق ان کے تقرر کے امکانات کم ہی ہیں۔